"DRA" (space) message & send to 7575

سیاست کی ناکامی!

پاناما لیکس کا کیس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ اِس کیس کے دو بڑے فریق‘ وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی اور تحریک انصا ف کے چیئرمین عمران خان‘ عدالت عظمیٰ پر اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ عدالت نے یکم اور سات نومبر کو اپنی ابتدائی سماعتوں کے بعد فریقین کو اپنے اپنے موقف کے حق میں دستاویزات اور شواہد داخل کرنے کے لیے 15 نومبر کی حتمی تاریخ دی ہے۔ اس کیس میں تحریک انصاف‘ وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے اہل خانہ کے خلاف شکایت لے کر عدالت میں گئی تھی اور عام دستور کے مطابق شکایت کنندہ کو اپنی شکایت کے حق میں تمام دستیاب شواہد بھی عدالت میں پیش کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں جب فاضل عدالت نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنی درخواست میں مخالف فریق پر جو الزامات عائد کیے ہیں‘ اُن کے ثبوت کہاں ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس کے ثبوت نہیں ہیں‘ یہ وہی صورت حال ہے جب آج سے دو برس قبل عمران خان نے حکومت پر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے اور جب اُن سے کہا گیا کہ دھاندلی کے ثبوت پیش کریں تو اُنہوں نے کہا کہ ثبوت تو تھیلوں میں ہیں اور جب تھیلے کھولے گئے تو اُن میں سے الیکشن کمشن کے عملہ کی بے ضابطگیوں اور غفلت کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔ نتیجتاً دھاندلی کی شکایات کی تفتیش کرنے والے کمیشن نے تحریک انصاف کی شکایات کو رد کر کے حکومت کو الیکشن دھاندلی کے الزامات کے سلسلے میں کلین چٹ دے دی۔ اب تک کی کارروائی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے پاناما لیکس کے مقدمہ میں بھی پی ٹی آئی یہی موقف اختیار کرے گی۔ جب عمران خان کے وکیل سے فاضل عدالت نے مطالبہ کیا کہ ثبوت پیش کریں تو اُن کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہمارے پاس تھے‘ وہ ہم نے عدالت کے سپرد کر دیئے ہیں۔ مزید ہمارے پاس کچھ نہیں۔ اگر عدالت کو ثبوت چاہئیں تو وہ انویسٹی گیشن کے ذریعے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مگر انویسٹی گیشن کون کرے گا؟ سپریم کورٹ تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ انوسٹی گیشن ایجنسی نہیں ہے۔ بات بھی صحیح ہے‘ آئین کے مطابق سپریم کورٹ ایک اپیلٹ کورٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انوسٹی گیشن کی ضرورت پیش آئی تو کسی اور ادارے یا ایجنسی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ لیکن عدالت تو نیب پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے‘ جو کہ ایک تفتیشی ادارہ ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے سوائے اس کے کہ وہ ایک کمیشن تشکیل دے اور کوئی چارہ کار نہیں رہتا۔ لیکن فاضل جج صاحبان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر عدالت کے سامنے 15 نومبر کو فریقین مطلوبہ دستاویزات اور شواہد پیش کر دیں تو عین ممکن ہے کہ کمیشن کی تشکیل کی نوبت ہی نہ آئے اور عدالت کسی نتیجہ پر پہنچ جائے کیونکہ جناب چیف جسٹس صاحب یہ فرما چکے ہیں کہ عدالت اس کیس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی تفتیش کے لیے پاناما جائیں گے‘ بلکہ عدالت کے سامنے اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کا جلد از جلد فیصلہ ہو جائے تاکہ بقول اُن کے ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالا جا سکے۔ عدالت سے باہر قانونی اور سیاسی حلقے اس بات پر پریشان ہیں کہ یہ کیس پیچیدہ سہی لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب وزیراعظم کے مستقبل کا سوال ہے اور اس کی گہرائی میں جائے بغیر اسے جلدی سے نمٹانے کی کوشش انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ قانونی حلقے اس رائے کے حامی ہیں کہ سپریم کورٹ کو صرف وہی کرنا چاہیے جو اُسے آئین اور قانون کرنے کی اجازت دیتا ہے اور آئین و قانون کے مطابق سپریم کورٹ نہ تو خود ایک تفتیشی ادارے کی حیثیت سے کام کر سکتی ہے اور نہ اس کام کے لیے کمیشن تشکیل دے سکتی ہے اور نہ کمشن کے لیے ٹرمز آف ریفرنس ٹی او آرز بنا سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک سپریم کورٹ کو اِس کیس کی سماعت ہی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ کیونکہ یہ دو سیاسی دھڑوں کے درمیان جھگڑا ہے اور سیاسی مسائل کو قانونی ذرائع سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا کیا جائے تو اس کے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال دھاندلی پر تشکیل پانے والے کمیشن کی ہے۔ کمیشن نے قانونی بنیادوں پر دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد بھی یہ مسئلہ جُوں کا تُوں ہے۔ عمران خان اب بھی پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار کہہ کر پکارتے ہیں اور سیاسی بنیاد پر اُسے ایک ناجائز حکومت سمجھ کر ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ پاناما لیکس کے مسئلے کے پیچیدہ ہونے کی بنیادی وجہ سیاست ہے۔ ایک دھڑا اس کی آڑ میں اپنا سیاسی مقصد یعنی موجودہ حکومت کی معزولی کا خواہشمند ہے اور اس کے لیے اپنی مرضی کے ٹی او آرز تیار کر کے انکوائری کمیشن کے ذریعے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف حکمران جماعت اور حکومت ہے جس کا استدلال یہ ہے کہ اپوزیشن ہر قیمت پر اُسے اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی مخالف جماعتوں کے وضع کردہ ٹی او آرز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
جس طرح قانونی طریقے سے سیاسی مسئلے کو حل کرنا نامناسب ہے۔ اسی طرح سیاسی دبائو سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش بھی غلط ہے اور اس کے منفی اثرات دیر تک قائم رہیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں سیاسی مفاد کی خاطر قانون کو توڑ مروڑ کر فیصلے کئے گئے۔ عوام نے ان فیصلوں کو اب تک قبول نہیں کیا۔ بلکہ ان فیصلوں کی وجہ سے ہماری عدلیہ جس نے عدل و انصاف کی بعض کئی شاندار روایات بھی قائم کی ہیں۔ متنازع بن رہی ہے۔ 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے جن وجوہات کی بناء پر پہلی آئین ساز اسمبلی کو معطل کیا‘ وہ خالصتاً سیاسی تھیں اور بنیادی طور پر اُن کا تعلق پارلیمنٹ اور سربراہ مملکت کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ تاہم عوام کی نظر میں گورنر جنرل کا یہ اقدام ناجائز تھا اور اب تک اسے ایک متنازع فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح 1979ء میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا
دی۔ لیکن عوام ابھی تک اس فیصلے کو انصاف کا قتل سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی متعدد حلقوں کی یہ رائے ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے جن کی وجہ سے سپریم کورٹ کا فیصلہ متنازع صورت اختیار کر جائے۔ ان حلقوں کی رائے میں اس مسئلے کے حل کے لیے پارلیمنٹ ہی موزوں ادارہ ہے اور اُسی کے پلیٹ فارم سے ایک انکوائری کمیشن کے قیام اور اُس کے ٹی او آرز کے لیے مطلوبہ قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ پاناما لیکس پر سیاست اس حد تک غالب آ چکی ہے کہ عمران خان ایک سے زیادہ مرتبہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کی طر ف سے اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر نمٹانے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی سٹریٹ ایجی ٹیشن اور دھرنے کا نتیجہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے ان بیانات کا نوٹس لینا چاہیے اور وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے خلاف جاتا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ اسے یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیں کہ یہ سٹریٹ ایجی ٹیشن اور دھرنے کے دبائو کے تحت کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اگر سپریم کورٹ اس کیس میں وزیراعظم کو کلین چٹ دیتی ہے تو عمران خان اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ پھر سٹریٹ ایجی ٹیشن اور دھرنے کی طرف رجوع کریں‘ یہ ساری صورت حال دراصل سیاست اور سیاستدانوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ سپریم کورٹ کو بیچ میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اگر سیاستدان آپس میں ایک انکوائری کمیشن اور اس کے ٹی او آرز پر متفق ہو جاتے لیکن سات ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سیاست دان اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اختلافات کی خلیج اتنی ہی وسیع ہے جتنی پہلے دن تھی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں