چند دن پیشتر اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مختلف چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے اور اس وقت بھی ملک میں جمہوریت ارتقائی دور سے گزر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی پاکستان میں جمہوریت کی نشو و نما اور فروغ کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں جن کو عبور کرنے کے بعد ہی پاکستان میں ایک صحت مند اور توانا جمہوریت کے قیام کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کے راستے میں حائل جن رکاوٹوں یا اس کو درپیش جن چیلنجوں کا جناب رضا ربانی نے ذکر کیا ہے ان میں سول ملٹری تعلقات ‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے درمیان توازن طاقت‘ حکومت اور پارلیمنٹ کے تعلقات اور سیاسی حکومت اور دیگر اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی شامل ہیں۔ اس سیمینار کا موضوع''جمہوریت کا ارتقاء اور اسے درپیش چیلنجز‘‘ تھا‘ جسے سینیٹ اور کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کو اسی عبوری دور سے کامیابی سے گزارنے کے لیے فہم و فراست تدّبر اور بُرد باری کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے ارتقائی سفر کا آغاز آزادی کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔1935ء کا ایکٹ جسے چند ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد نئے ملک میں ایک عبوری آئین کے طور پر اپنایا گیا تھا۔ ایک جمہوری آئین نہیں تھا۔ بلکہ اس پر غیر جمہوری اور آمرانہ رجحانات کا غلبہ تھا۔ مثلاً اس کے تحت حق رائے دہی محدود تھا ۔بنیادی انسانی حقوق جو جمہوریت کی جان ہوتے ہیں‘ ناپید تھے اور سب سے بڑھ کر کہ پارلیمنٹ (اسمبلی) کے مقابلے میں گورنر جنرل(سربراہ مملکت) وسیع صوابدیدی اور خصوصی اختیارات کا مالک تھا جن کے تحت وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کی تقرری اور برطرفی کے اختیارات گورنر جنرل کے ہاتھ میں تھے۔1947ء سے 1954ء یعنی سات سال کے عرصہ کے دوران میں گورنر جنرل نے ان اختیارات کو کئی بار استعمال بھی کیا
جن میں 1953ء میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی معزولی اور 1954ء میں پہلی آئین ساز اسمبلی کی برطرفی بھی شامل تھی۔ لیکن سیاسی قوتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں ان غیر جمہوری اختیارات میں سے بہت سوں کو حذف کر کے 1956ء کا آئین تشکیل دیا گیا۔ یہ بھی ایک کامل جمہوری آئین نہیں تھا۔ تاہم اس میں عبوری آئین کی بہت سی خرابیاں شامل نہیں تھیں۔ بلکہ پارلیمنٹ اور صدر کے درمیان توازن طاقت کو قدرے پارلیمنٹ کے حق میں کرنے کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے دائرے کو بھی کچھ حد تک وسیع کر دیا گیا تھا۔ عام بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اسمبلیوں کے براہ راست انتخاب اور بنیادی انسانی حقوق کو پہلی آئین ساز اسمبلی شروع میں ہی آئین کا حصہ بنا چکی تھی۔ مشرقی پاکستان سے چند سیاسی پارٹیوں کے تحفظات کے باوجود اس آئین کو باقی تمام سیاسی پارٹیوں کی متفقہ حمایت حاصل تھی۔ کیونکہ اس میں پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کی ضمانت دی گئی تھی۔ امید تھی کہ 1956ء کے آئین کی بنیاد پر پاکستان میں جمہوریت اپنے سفر میں مزید اہم کامیابیاں حاصل کرے گی اور اس آئین میں جو خامیاں رہ گئی ہیں‘ وہ آہستہ آہستہ دور ہو جائیں گی۔ لیکن 1958ء مں پاکستان کے پہلے فوجی آمر‘ جنرل ایوب خاں نے شب خون مارا‘ حکومت برطرف کر دی اور 9برس کی محنت سے بنایا ہوا آئین منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ ایوب خاں نے تقریباً4سال براہ راست مارشل لاء کے ذریعے حکومت کی۔ اور پھر اپنے ہی بنائے ہوئے 1962ء کے آئین کے تحت مارچ1969ء تک پاکستان کا حکمران رہا۔1962ء کے آئین کے تحت پاکستان میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام حکومت رائج کر دیا گیا اور ملک عملی طور پر ایک وفاقی ریاست کی بجائے‘ وحدانی ریاست میں تبدیل ہو گیا۔ بلکہ بالواسطہ انتخابات کا طریقہ رائج کر
کے‘ عوام کو سیاسی امور میں براہ راست شرکت سے بھی محروم کر دیا۔ ایوب خاں کے طویل فوجی اور نیم فوجی آمرانہ دور نے پاکستان میں آگے آنے والے مارشل لاء اور فوجی حکومتوں کے ادوار کی راہ ہموار کی۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ایوب خاں کی فوجی بغاوت نے پاکستان کو دولخت کرنے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی‘ تو یہ مبالغہ نہیں ہو گا‘ کیوں کہ 1956 ء کے آئین کومنسوخ کر کے ایوب خاں نے پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان مساوی نمائندگی کے جس اُصول کی بنیاد پر متحدہ پاکستان کی عمارت کھڑی تھی‘اسے مارشل لاء لگا کر ختم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1970ء میں جنرل یحییٰ خاں نے پاکستان کے پہلے عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے ''مساوات‘‘ کے اصول کو مسترد کر کے ''ون مین ون ووٹ‘‘ یعنی آبادی کی بنیاد پر انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ 1973ء کا آئین جس کے تحت نہ صرف پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا گیا بلکہ صوبائی خودمختاری کے دائرے کو بھی وسیع کیا گیا۔ پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ اس آئین کے تحت عام بانع رائے دہی کی بنیاد پر اسمبلیوں کے انتخاب کا اصول بحال کر کے اور صدر کی بجائے وزیراعظم کو چیف ایگزیکٹو قرار دے کر ایوب خان کے صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام رائج کر کے پاکستانی عوام نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ ملک میں صرف اور صرف وفاقی پارلیمانی نظام چاہتے ہیں۔ عوام کی اس خواہش کے برعکس ضیاء الحق نے 8 ویں اور جنرل مشرف نے 17 ویں آئینی ترامیم کے ذریعے پاکستان میں عملی طور پر پھر صدارتی نظام رائج کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں نے پہلے 1997ء میں چودہویں اور پھر 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترامیم کے ذریعے فوجی آمروں کی ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ آمریت کے ان طویل ادوار کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت کو ابھی اپنے قدم جمانے میں دقت پیش آ رہی ہے لیکن گزشتہ تقریباً 70 برس کے تجربے سے ہم بلاخوف و خطر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پاکستانی عوام اپنے ملک میںجمہوری کے علاوہ کسی اور نظام کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور جمہوریت سے ان کی مراد وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے پاکستان میں جمہوریت کو درپیش جن چیلنجوں کا ذکر کیا ہے ‘زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے موجودہ آئینی اور سیاسی ڈھانچے سے ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیلنجز ملک میں مختصر جمہوری ادوار کی بجائے آمریت کے لمبے عرصے کی پیداوار ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کو ابھی تک نوزائیدہ پودے سے تشبیہ دی جاتی ہے جسے پھلنے پھولنے اور تن آور درخت بننے تک آبیاری کے علاوہ موافق آب و ہوا کی ضرورت ہے۔ تاہم پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ملک کے عوام کو جمہوری سیاسی نظام سے جو توقعات وابستہ ہیں انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ باعث تقویت عوام کا اعتماد ہے اور جمہوریت سے قطع نظر کسی بھی نظام پر عوام کا اعتماد اسی وقت پیدا ہو گا جب وہ عوام کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترے گا پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ توقعات غربت ‘بیروزگاری اور مہنگائی کے خاتمہ جان و مال کا تحفظ‘ صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی امن و استحکام کا قیام اور قانون کی حکمرانی کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ جمہوریت کو لاحق دیگر خطرات کے علاوہ جمہوری حکومتوں کی کارکردگی اور عوام کو درپیش مسائل حل کرنے میں کامیابی بھی جمہوریت کی بقاء کے لیے اہم عوامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جمہوری حکومتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا حکومتوں پر اعتماد بڑھتا ہے تو جمہوری نظام سے بھی عوامی وابستگی میں اضافہ ہو گا اور اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔ اسی طرح معاشرے میں پائی جانے والی قدروں‘ افراد کے رویوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں مثلاً عورتوں‘ بچوں معذوروں بوڑھوں اور اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ سلوک کا بھی جمہوریت سے گہرا تعلق ہے اس لیے کہ جمہوریت محض کسی سیاسی نظام کا نام نہیں بلکہ تحمل ‘قوت برداشت‘ باہمی احترام اور بھائی چارے جیسے رویوں پر مشتمل کلچر کا نام ہے معاشروں میں جمہوری قدروں اور جمہوری رویوں کی موجودگی کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان میں معاشرتی سطح پر یہ احساس تقویت حاصل کر رہا ہے کہ جمہوریت کی بقا اور اور نشوونما کی خاطر صحت مند جمہوری رویے اپنانا بہت ضروری ہے حکومتوں نے بھی مختلف قوانین مثلاً بچوں اور خواتین کے تحفظ اور اقلیتوں کی بھلائی منظور کر کے اس احساس کو مزید تقویت فراہم کی ہے ایک آزاد عدلیہ اور طاقتور میڈیا نے بھی پاکستان میں جمہوری نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر ہم گزشتہ ستر برس کی ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو صاف معلوم ہو گا کہ اسی دوران پاکستان میں جمہوریت کا ارتقائی عمل آگے بڑھا ہے۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اس عمل کو روکنے کی جو کوششیں کی گئیں وہ ایک ایک کر کے مٹتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2008ء میں منتخب ہونے والی جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور انتخابات کے ذریعے اقتدار اگلی حکومت کے حوالے کر دیا پاکستان میں جمہوریت کے لیے یہ ایک اچھا شگون ہے لیکن اس کے تواتر کی ضمانت کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری حکومتیں ملک کو درپیش چیلنجز اور عوام کو درپیش مسائل کے حل میں زیادہ سرگرمی دکھائیں۔