دُنیا کے دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں فوجی قیادت کی تبدیلی کو غیر معمولی اور اہم مضمرات کا حامل معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے مُلک کی تاریخ ہے، جس کے آدھے حصّے کے دوران فوج نے براہ راست یا بالواسطہ حکومت کی۔ فوج میں چیف کا عہدہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اس پر فائز کے ہر لفظ اور ہر حرکت کی طرف سب کا دھیان ہوتا ہے، بحث کی جاتی ہے، تجزیے کیے جاتے ہیں اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔
29 نومبرکو آرمی کمانڈ میں تبدیلی اور نئے چیف آف دی آرمی سٹاف کی تقرری کے بعد بھی اسی طرح کے تبصرے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ کیا جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے پیشرو جنرل راحیل شریف کی پالیسیوں پر کاربند رہیں گے یا ان سے ہٹ کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی راہیں متعین کریں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً امریکہ ‘ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اور ایٹمی پروگرام‘ کشمیر اور انسدادِ دہشت گردی جیسے مسائل پر فوج کی سوچ اور رائے کو غالب حیثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن جنرل راحیل شریف کے تین سالہ دور میں یہ غلبہ زیادہ نمایاں نظر آنے لگا تھا۔ اس لیے یہ سوال خصوصی طور پر اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا فوج خارجہ پالیسی کے شعبے میں بدستور بالادست کردار ادا کرتی رہے گی؟ نئے چیف کی قیادت میں فوج کے جس دوسرے شعبے میں کردار کی بات کی جا رہی ہے وہ سِول ملٹری تعلقات کا ہے۔ اِس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ 1988ء میں ضیاء دور کے بعد جمہوریت کی بحالی کے بعد سِول ملٹری تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں یہ تعلقات زیادہ دبائو کا شکار رہے۔ کیا جنرل باجوہ کے دور میں اِن میں کوئی تبدیلی آئے گی اور سویلین قیادت کو خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے اور اُس پر عملدرآمد میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا؟ ابھی جنرل باجوہ کو کمان سنبھالے چند ہی دن ہوئے ہیں، انہوں نے کوئی ایسا بیان دیا نہ ایسا اقدام کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ ان کا دورِ ان کے پیشرو کی طرح ہو
گا یا مختلف؛ تاہم تاریخ کے آئینے میں جھانکتے ہوئے چند حقیقتیں ضرور ایسی نظر آتی ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دُنیا کی چَھٹی بڑی فوج ہونے کی حیثیت سے پاکستانی فوج اپنے اختیارات اور مفادات کا دائرہ وسیع کر چکی ہے، البتہ کچھ شُعبے ایسے ہیں جن سے روایتی طور پر فوج کوئی سرکار نہیں رکھتی۔ بلاشبہ پاکستان میں فوج کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہے، اسے انتہائی عزت و تکریم سے دیکھا جاتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ فوج نے یہ مقام اپنے نظم و ضبط، استعداد‘ لگن اور قربانی کے جذبے کی بدولت حاصل کیا ہے۔ لیکن اکثر حلقوں کا خیال ہے کہ بہت سے ایسے شعبوں میں جن کا فوج کے پیشہ ورانہ فرائض سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا‘ عسکری مداخلت فوج کی دفاعی صلاحیّت کو متاثر کر رہی ہے۔ خصوصاً سیاسی اُمور میں فوج کی مداخلت کے خلاف رائے عامہ نہ صرف وسیع ہو رہی ہے‘ بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہُوا ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں جو انتخابی سیاست اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں (بعض مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت) اس مسئلے پر اتفاق رائے اُبھر رہا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہیں الجھنا چاہیے، حکومت کرنا بنیادی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے۔
بانیان پاکستان نے یہ اصول قرارداد مقاصد کی شکل میں بہت پہلے طے کر دیا تھا۔ اسی طرح قومی سطح پر اتفاق رائے بھی اُبھر رہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کو نہ صرف اس کے موجودہ محدود مفہوم سے باہر نکال کر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے وسیع معنوں میں تسلیم کیا جائے بلکہ اس کی تشریح پر کسی ایک ادارے کو اجارہ داری حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ ان منصوبوں کی تشکیل میں ملک کے تمام ادارے۔۔۔۔ سویلین اور ملٹری ایک پیج پر ہونے چاہئیں۔ اصولی طور پر تو سب سٹیک ہولڈرز اس پر اتفاق کرتے ہیں اور دُنیا کے سامنے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایسا ہی ہے لیکن اس کی حمایت میں کبھی کوئی غیر مُبہم اور دو ٹوک بیان جاری نہیں کیا گیا۔ نئی فوجی قیادت کے دور میں اس کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آئندہ اگر کوئی سیاسی پارٹی یا سیاسی رہنما پبلک پلیٹ فارم سے فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے یا منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی دعوت دے تو اسے فوجی قیادت کی طرف سے ایک شٹ اَپ کال ملنی چاہیے۔ اِس سے سول ملٹری تعلقات سے متعلق قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
بیشتر تبصرہ نگاروں کی رائے میں فوجی قیادت کی تبدیلی سے سول ملٹری تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس حقیقت کے باوجود کہ فوج کے تنظیمی ڈھانچے میں چیف کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہوتی ہے‘ فوج ایک ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ فرد کا کردار یقینی طور پر اہم ہے مگر جب ادارے کے مفادات کی نوبت آتی ہے تو فرد کو ادارے کے مفادات کو سامنے جُھکنا پڑتا ہے۔ ایک ادارے کی حیثیت سے گزشتہ تقریباً چھ دہایوں میں فوج نے جو وسیع مفادات اور اختیارات حاصل کیے ہیں، پاکستان کی مخصوص جیو سٹریٹیجک پوزیشن کے پیش نظر فوج نے اس کا پورا پورا دفاع کیا ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔ فوج نے نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں مکمل خود اختیاری بلکہ قومی معاملات میں برابر کی شرکت پر اصرار کیا ہے۔ دفاعی اور خارجہ پالیسی کے شعبوں کے علاوہ پاک چین کاریڈور کے تحفظ اور اس پر عملدرآمد کی رفتار تیز کرنے میں فعال کردار بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نئے چیف کی تقرری سے اس سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ اسی بنا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ جنرل باجوہ کا اپنا لیڈر شپ سٹائل اورکام کرنے کا انداز ہو گا لیکن جہاں تک فوج کے بحیثیت ایک ادارے کے مفادات اور ترجیحات کا تعلق ہے، فوج کسی ادارے کو ان میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔ بھارت کے جارحانہ عزائم سے پاکستان کی بقا کو جو خطرہ لاحق رہا ہے اس نے ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا ہے۔ خطے میں افغانستان اور دہشت گردی کی صورت میں جو نئے چیلنج اُھرے ہیں‘ اُن کے پیش نظر بلا شبہ فوج کے کردار کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مُلک کے اندر دہشت گردی کے خلاف جو کارروائیاں جاری ہیں ان کے نتیجے میں بھی سویلین اداروں کے مقابلے میں فوج کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جو مشکل چیلنجز درپیش ہیں ان کے پیش نظر حکومت کا وہ حصہ جو سویلین قیادت پر مشتمل ہے بیک گرائونڈ میں چلاگیا ہے اور فوج نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے‘ تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک جوں کی توں قائم نہیں رہ سکتی، یہ تبدیلی کی متقاضی ہے کیونکہ یہ چیلنجز ختم نہیں ہوئے‘ بلکہ پہلے کے مقابلے میں شدید صورت اختیار کر لی ہے۔ افغانستان کی صورت حال بدستور مخدوش ہے اور حال ہی میں ہونے والے چند سرحدی واقعات نے پاک افغان تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کے لیے سپلائزکی فراہمی میں مدد دینے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کا ساتھ دینے کے باوجود پاک امریکہ تعلقات بدستور سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ کی طرف سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی رقوم کی فراہمی کی معطلی ہے۔ مشرقی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کا ماحول ہے اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات میں اضاف کر کے‘ بھارت نے بڑی ہوشیاری سے عالمی برادری کی توجہ کشمیرسے ہٹا کر پاک بھارت تصادم کو روکنے کی کوششوں کی طرف مبذول کروا دی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی موجودہ لہر کشمیریوں کی اپنی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اسے دبانے کے لیے بھارت کی طرف سے طاقت کا بے دریغ استعمال انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے‘ عالمی برادری بھارت کے ظلم کے ہاتھ روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔
دنیا میں بھارت کے بیانیہ کی پذیرائی زیادہ ہے اور پاکستان کی طرف سے بسیار کوشش کے باوجود عالمی برادری کی طرف سے بھارت پر کوئی دبائو نہیں ڈالا جا رہا۔ ملک کے اندر بھی اگرچہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب نے نمایاں کامیابیاں حاصل ہیں لیکن ملک کے دیگر حصوں میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے محاذ پر سب ٹھیک نہیں، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانا کسی واحد ادارے کے بس کی بات نہیں۔ فوج کا کام تو طاقت استعمال کر کے دشمن کا قلع قمع کرنا ہے اور پاکستان کی فوج نے یہ کام احسن طریقے سے کر کے دکھا بھی دیا ہے، لیکن سیاسی و سفارتی محاذ پر کامیابی کا حصول سویلین سیٹ اپ کی ذمہ داری ہے، اگر یہ کام مشترکہ طورپر کیا جائے تو کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے، ورنہ صورت حال بدستور مخدوش اور خطرناک رہے گی۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ایسی غیر یقینی اور عدم استحکام کی صورت حال کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے سیاسی اورسویلین قیادت کو آگے آنا چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرزکو ساتھ لے کر نہ صرف بیرونی محاذوں پر بلکہ اندرونی محاذ پر بھی جرأت مندانہ فیصلے کرنا چاہیے۔ تب جا کر سویلین ملٹری تعلقات میں وہ عدم توازن دور ہوگا جس کا گِلہ اکثر سویلین حلقوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔