خارجہ پالیسی‘ جس کا دوسرا نام کسی ملک کے خارجہ تعلقات یا خارجہ امور بھی ہے‘ دراصل ریاست کے اہم مقاصد کے حصول کے لیے حکومت کی جانب سے وضع کردہ حکمت عملی کو کہتے ہیں۔ جب ایک آزاد اور خود مختار ریاست‘ دوسری آزاد اور خود مختار ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی استواری کے لئے ایک پالیسی طے کرتی ہے‘تو اسے خارجہ پالیسی کہا جاتا ہے۔ خارجہ پالیسی صرف اور صرف قومی مفاد (Natanial Interest) پر مبنی ہوتی ہے اور اسے کسی سمت میں چلانے کا اختیار صرف اور صرف حکومت کو حاصل ہے۔ اس کے بنیادی مقاصد ریاست اور عوام کے اہم مفادات کا تحفظ ہے‘ جن میں قومی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی فلاح و بہبود کا فروغ شامل ہے۔ چونکہ قومی مفاد پر مبنی خارجہ پالیسی کے اصول کا اطلاق ہر ملک پر ہوتا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ ہر ملک دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں ان کے بھی قومی مفاد کا احترام کرے اور ایسی خارجہ پالیسی اختیار کرے جس میں ایک کا نقصان دوسرے کا فائدہ ہونے کی بجائے دونوں کا فائدہ ہو۔ اسی لیے خارجہ پالیسی کے شعبے میں دیگر ملکوں کے ساتھ معاملات میں محاذ آرائی کی بجائے باہمی تعاون کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس تعاون میں ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس طرح خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کا مکمل اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ حکومت کو یہ اختیار ریاست کی طرف سے ایک آزاد شفاف غیر جانبدار اور جمہوری عمل یعنی عام انتخابات کے ذریعے تفویض کیا جاتا ہے۔
ریاست میں کسی اور ادارے پارٹی‘گروپ یا فرد کو خارجہ پالیسی یعنی دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ صرف آزادی خود مختار اور مقتدر ریاستوں کے مابین تعلقات کا معاملہ ہے۔ جب سے ریاست معرض وجود میں آئی ہے دوسری ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات یعنی خارجہ پالیسی انہی بنیادی قوانین اور ضابطوں کے ماتحت رہی ہے۔ جہاں کہیں اور جب کبھی ان قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کی گئی تو نتیجہ جنگ کی صورت میںنکلا۔ ابتدا میں یہ جنگیں مخصوص علاقوں یا میدان جنگ میں آمنا سامنا کرنے والی فوجوں تک محدود ہوتی تھیں اور ان کی تباہی اور بربادی کا شکار ہونے والے علاقے یا لوگ وہی ہوتے تھے جو متحارب فوجوں کی براہ راست زد میں آتے تھے لیکن آلات حرب کی ترقی اور ذرائع مواصلات اور نقل و حرکت میں حیرت انگیز تبدیلی نے جنگ کا ایک ایسا تصور پیش کیا جس میں عام شہری بھی تباہی سے محفوظ نہیں رہ سکتے تھے۔ اس حوالے سے مثال گزشتہ صدی میں لڑی جانے والی دو جنگوں‘ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم‘ کی دی جا سکتی ہے جن میں فریقین کے سپاہیوں کے علاوہ جنگ میں حصہ لینے والے ممالک کے کروڑوں شہریوں کو بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم (1914-1918)کا اختتام اور دوسری جنگ عظیم(1939-1945)کا آغاز ٹینکوں کی لڑائی سے ہوا‘ جبکہ موخر الذکر کا اختتام ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر ہوا۔ اب اگر بین الاقوامی تعلقات کے مروجہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئی یعنی تیسری عالگیر جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو یقیناً یہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہو گا۔ 1945ء میں دنیا میں صرف ایک ملک یعنی امریکہ کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے۔ اب ایٹمی ہتھیاروں کے ممالک کی تعداد نہ صرف بڑھ چکی ہے‘ بلکہ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں کے مقابلے میں ان کی تباہ کاری کی استعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔ اس لیے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی دو سو کے قریب قوموں کے باہمی تعلقات یعنی خارجہ پالیسی پر عالمگیر سطح پر آہستہ آہستہ جو اتفاق رائے ابھر رہا ہے‘ اس کے چند بنیادی اصولوں کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘ بلکہ پیچیدہ سے پیچیدہ اور مشکل سے مشکل مسئلے کا حل باہمی مذاکرات اور پرامن طریقے سے نکالا جا سکتا ہے۔
قوموں کے درمیان تعلقات مساوات‘ باہمی احترام‘ باہمی مفاد اور باہمی تعاون پر مبنی ہونے چاہئیں۔ اس میں ایک دوسرے کی آزادی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے احتراز بھی شامل ہے۔ ہر ملک کو اپنے قومی مفاد پر مبنی خارجہ پالیسی اپنانے کا اختیار حاصل ہے لیکن ایسا کرتے وقت اسے دوسروں کے قومی مفادات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔
خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد یعنی ریاست کا تحفظ اور عوام کی فلاح و بہبود صرف ایک پرامن علاقائی اور عالمی ماحول میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہر ملک کے لیے نہ صرف یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کرے بلکہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایسے اقدامات کو ترجیح دے جن کے نتیجے میں عالمی امن مفاہمت اور تعاون کو فروغ ملے۔
بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے ان بنیادی اصولوں پر مبنی فریم ورک میں اگر ہم پاکستان کی موجودہ یا ماضی قریب کی خارجہ پالیسی کو فٹ کرنے کی کوشش کریں تو معلوم ہو گا کہ ہماری خارجہ پالیسی بے سمت رہی ہے۔ اس کے اہداف کبھی واضح طور پر بیان نہیں کئے گئے‘ نہ ان کے حصول کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد جن لوگوں کا کام ہے ان کے ہاتھ سے چھین کر ایسے شعبوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جو خارجہ پالیسی کے نازک مسائل کو ان کے وسیع تر تناظر میں سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ خارجہ پالیسی کا تعلق صرف ریاست اور حکومت سے ہے۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس ملک (ریاست) کی ہیئت اور مقاصد کو واضح طور پر بیان نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ابھی اس بحث کا فیصلہ نہیں ہوا کہ پاکستان ایک مذہبی یا سیکولر ریاست ہو گی‘حالانکہ قائد اعظم کی 11اگست 1947ء کی تقریر سے یہ واضح پیغام حاصل ہوتا ہے کہ جہاں تک افراد یعنی شہریوں کے مذہبی معاملات کا تعلق ہے ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر رہنے والے تمام لوگ بلا تمیز رنگ‘ نسل ‘ مذہب اور عقیدہ برابر کے شہری ہوں گے۔ مگر ہم نے قرار داد مقاصد(1949)منظور کرکے پاکستانی شہریوں کو اقلیت اور اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ خارجہ پالیسی قومی
مفاد پر مبنی ہوتی ہے لیکن قومی مفاد‘ ذاتی اور انفرادی مفاد‘ گروہی مفاد کسی سیاسی پارٹی کے مفاد ‘ حتیٰ کہ کسی ایک حکومت کے مفاد (regime interest)سے الگ ہونا چاہئیں۔ جنرل ضیاء الحق نے سابق سوویت یونین کے خلاف افغان تحریک مزاحمت میں آنکھیں بند کرکے امریکہ کا ساتھ اپنی غیر آئینی اور غیر قانونی فوجی حکومت کو طول دینے کے لیے دیا تھا‘ مگر دعویٰ کیا گیا کہ یہ اقدام قومی مفاد کے تحت کیا گیاتھا۔ اسی طرح جنرل مشرف نے 9/11کے بعد افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو درکار زمینی اور فضائی راستے اپنے شخصی اقتدار کو بچانے کے لیے فراہم کیے تھے لیکن یہاں بھی پاکستان کے چوتھے فوجی حکمران نے قومی مفاد کی دلیل پیش کی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بحران کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں قومی مفاد National interest اور حکومت کے مفاد Regime interestمیں تمیز نہیں کی گئی بلکہ اقتدار چھن جانے کے خدشے کے پیش نظر ایسی پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں جو کسی حکومت کو وقتی طور پر عدم استحکام سے تو بچا سکتی ہیں لیکن جو ریاست اور عوام کے دور رس مفاد کے منافی ہیں۔ ان میں غیر ریاستی عناصر non-state actorsکے بارے میں کمزور اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنا اور ذاتی اور خاندانی روابط کی بنیاد پر غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ دوستی کو ریاست کے مفاد پر ترجیح دینا بھی شامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے عوام کی پیٹھ پیچھے کیے گئے اور اگر عوام نے خارجہ پالیسی کی سمت کے ضمن میں کبھی کھل کر اظہار کیا یا کسی حکومت کو درستی ٔ سمت کے لیے مینڈیٹ دیا تو غیر سیاسی قوتوں نے عوام کے اس مینڈیٹ کو سبو تاژ کر دیا۔ اس رجحان پر فل سٹاپ لگانے کی ضرورت ہے۔ تبھی جا کر ہماری خارجہ پالیسی کی سمت درست ہو گی اور اس کے ذریعے وہ مقاصد حاصل ہو سکیں گے جن کے لیے پاکستان قائم کیا گیاتھا۔