ترکی میں صدر طیب اردوان کی طرف سے ملک میں آئینی اصلاحات پر حال ہی میں ایک قومی ریفرنڈم منعقد کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں حکمران پارٹی کی طرف سے تجویز کردہ آئینی اصلاحات کے حق میں اکثریت نے فیصلہ دے دیا ہے۔ ریفرنڈم میں حکمران جماعت کی جیت سے ترکی میں 2019ء کے بعد پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے گا۔ مبصرین کے مطابق جدید ترکی کی تاریخ میں یہ ایک بہت اہم اور بنیادی سیاسی اور آئینی تبدیلی ہے۔ اسی وجہ سے ریفرنڈم اور اس کے نتائج پر نہ صرف ترکی کے اندر بلکہ اس کے اردگرد کے ممالک خصوصاً یورپی یونین میں بھی مختلف پہلوئوں سے بحث جاری تھی۔ ترکی کا یہ ریفرنڈم اور اس کا نتیجہ کئی لحاظ سے پاکستان کے لیے بھی دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ پہلے جدید ترکی کے خصوصی سیاسی تناظر میں ریفرنڈم کی تفصیل اور اس کے مضمرات پر بات کرنا مفید ہو گا۔ اس ریفرنڈم میں عوام کے سامنے دو درجن کے قریب آئینی اصلاحات کا ایک پیکیج رکھا گیا تھا‘ جن کے تحت ترکی میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی‘ یعنی وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا‘ اور اس کی جگہ دو یا دو سے زیادہ نائب صدور مقرر کئے جائیں گے۔ صدر کا پانچ برس مدت کے لیے براہ راست انتخاب ہو گا اور وہ بیک وقت حکومت اور ریاست کے سربراہ ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی اپنی پارٹی کی قیادت بھی اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں گے۔ اسی طرح صدر کے سر پر ایک نہیں‘ دو نہیں بلکہ تین ہیٹ ہوں گے۔ وہ انتظامیہ کا سربراہ ہو گا‘ اور مملکت کی سربراہی بھی اسے حاصل ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ملک کا سیاسی رہنما بھی ہو گا۔ یعنی حکمران جماعت پر بھی صدر کو کنٹرول ہو گا اور پارلیمانی انتخابات میں پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہو گا۔ چونکہ پیکیج کے تحت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ہی دن ہوں گے‘ اس لیے صدر اردوان کے مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ اس طرح انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات یکجا ہو جائیں گے‘ جو کہ اصل صدارتی نظام‘ جس کی سب سے واضح شکل امریکہ میں ہے‘ کے نظریہ تقسیمِ اختیارات کی نفی ہو گا۔ اصلاحات کے پیکیج میں صدر کو اعلیٰ عدلیہ کے بعض جج صاحبان کی تقرری کے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ اس طرح صدر انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ‘ یعنی ریاست کے تینوں شعبوں کے اختیارات کے مالک بن جائیں گے۔ اسی بنا پر حکومت کی مخالف سیاسی جماعتیں‘ جنہوں نے اس ریفرنڈم کے خلاف رائے عامہ منظم کی تھی‘ اردوان پر آمرانہ اختیارات حاصل کرنے کا الزام عائد کر رہی ہیں‘ لیکن صدر اردوان اور ان کے حامیوں کا جواب یہ ہے کہ ترکی کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے اور ترقی اور استحکام کی شاہراہ پر گامزن رکھنے کے لیے مضبوط قیادت کی ضرورت ہے‘ جو صرف صدر اردوان ہی فراہم کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کا عہدہ وسیع آئینی اور سیاسی اختیارات کا حامل ہو۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ صدر اردوان عوام میں بہت مقبول ہیں اور اس کا ثبوت گزشتہ سال جولائی میں فوجی بغاوت کے موقع پر عوام نے فراہم کر دیا تھا‘ جب انقرہ اور استنبول کی سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے باغیوں کے ٹینکوں کو نہتے عوام نے پسپائی پر مجبور کر دیا تھا؛ البتہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر اردوان نے جس وسیع پیمانے پر لوگوں کی پکڑ دھکڑ کی‘ اور بغاوت میں حصہ لینے یا باغیوں سے ہمدردی کے شک پر سرکاری ملازمین‘ صحافیوں‘ عدلیہ کے ارکان اور اساتذہ کو ملازمتوں سے فارغ کیا ہے‘ اس پر عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ اس کے باوجود ریفرنڈم کی مہم کے دوران ترک عوام نے ہزاروں کے اجتماعات میں شریک ہو کر اپنے محبوب رہنما کی حمایت کا مظاہرہ کیا۔ ان بڑے بڑے اجتماعات سے تاثر ملتا تھا کہ صدر اردوان کو ریفرنڈم میں بھاری تعداد میں ووٹ پڑیں گے‘ لیکن وہ یہ ریفرنڈم بڑی معمولی اکثریت یعنی 51.5 فیصد مثبت ووٹوں سے جیت سکے۔ ترکی کے تین بڑے شہروں استنبول‘ انقرہ اور ازمیر میں اپوزیشن کا پلڑا بھاری رہا‘ اور بحیرہ روم سے ملحق سرحدی علاقوں میں ریفرنڈم کا نتیجہ صدر اردوان کی تجویز کے خلاف تھا۔ اس سے مبصرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ترکی میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت کے قیام پر عوامی رائے عامہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور حکومت کے دعووں کے برعکس ترکی میں صدارتی نظام کو عوام کی بھاری حمایت
حاصل نہیں۔ ترکی میں سیاسی تبدیلیوں کے عمل میں دلچسپی رکھنے والے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اس ریفرنڈم کے نتائج کا بڑی بیتابی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ ترکی اور پاکستان کے درمیان حکومتی اور عوامی سطح پر انتہائی قریبی دوستانہ اور بھائی چارے پر مبنی تعلقات قائم ہیں‘ بلکہ ترکی کی طرح ہمارے ہاں بھی بعض سیاسی رہنمائوں‘ ٹیکنوکریٹس اور فری لانس دانشوروں پر مشتمل ایک لابی موجود ہے جو ملک میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام کی خواہاں ہے‘ حالانکہ 1956ء اور اس کے بعد 1973ء میں تمام سیاسی جماعتوں نے قومی اتفاق رائے کے ذریعے پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر ترکی کے ریفرنڈم میں صدارتی نظام کے حق میں بھاری ووٹ پڑتے تو پاکستان میں صدارتی نظام کی حامی لابی نے اپنے موقف کے حق میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لینا تھا‘ لیکن ترکی کے ریفرنڈم میں صدارتی نظام کے حامیوں کو ان کی توقع اور دعووں کے برعکس کم ووٹ ملنے سے پاکستان میں بھی صدارتی نظام کے حامی مایوس ہو گئے‘ حالانکہ پاکستان اور ترکی کی سیاسی تاریخ کے دھارے ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ جدید ترکی کی بنیاد کمال اتاترک نے 1923ء میں خلافت کے خاتمہ کے اعلان کے بعد رکھی تھی۔ یعنی جدید ترکی کے سیاسی آئینی اور انتظامی ڈھانچے کا نظامِ خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کا ریاستی اور حکومتی ڈھانچہ اس نظام کا تسلسل ہے‘ جس کی بنیاد انگریزوں نے قیامِ
پاکستان سے تقریباً دو سو سال قبل رکھی تھی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے آئین کا بیشتر حصہ اب بھی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء پر مبنی ہے۔ وفاقیت (Federalism) پارلیمانی نظام (parliamentary) اور آزاد عدلیہ(Indepedent judiciary) اسی نظام کے تین اہم ستون ہیں جنہیں نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت نے بھی من و عن اپنایااور انہیں اپنی آزاد مملکتوں کے سیاسی نظام کا حصہ بنایا کیونکہ یہ تینوں اصول ایک طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں‘ جسے حتمی شکل میں لانے کے لیے کانگرس‘ مسلم لیگ اور انگریز سرکار کے بہترین قانونی ذہنوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس بنا پر وفاقی پارلیمانی نظام برصغیر پاک و ہند کے عوام کے ایک وسیع عرصہ پر محیط اجتماعی تجربے کا نچوڑ اور اس سے حاصل ہونے والے اجتماعی شعور کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمروں کی طرف سے صدارتی نظام کو براہِ راست نافذ کرنے یا پارلیمانی نظام کو عملاً صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ایوب خان نے 1962ء کے دستور کے تحت صدارتی نظام نافذ کیا اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے 1973ء کے آئین میں دیے ہوئے پارلیمانی نظام کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی لیکن تینوں ناکام رہے۔ پاکستان میں جو لوگ ترکی کے ریفرنڈم سے متاثر ہو کر پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں‘ انہیں پاکستان اور ترکی کے الگ الگ سیاسی تجربات کے علاوہ فوجی آمروں کی ان کوششوں کے انجام کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے‘ جن سے ملک میں جمہوریت کی بنیاد ہی کمزور نہیں ہوئی بلکہ ریاستی اداروں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔