"DRA" (space) message & send to 7575

پاک‘ ایران گیس پائپ لائن

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے صرف اس لیے نہیں کہ پاکستان کے ساتھ ایران کی 900 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد ہے یا بحیرہ عرب جس کے راستے خلیج فارس کا پٹرولیم باہر کی دنیا کو بھیجا جاتا ہے کے طویل ساحل پر پاکستان کو کمانڈنگ پوزیشن حاصل ہے‘ بلکہ ایران کے ساتھ ہمارے گہرے تاریخی‘ تجارتی‘ ثقافتی اور مذہبی رشتے قائم ہیں یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی ہر حکومت نے ایران کے ساتھ پہلے سے موجود قریبی تعلقات کو اور بھی مضبوط کرنے کے اقدامات کئے ہیں۔ اسی طرح ایران نے بھی نہ صرف ہر دور میں پاکستان کے لیے خیرسگالی اور محبت کا اظہار کیا ہے بلکہ بوقت ضرورت پاکستان کی بھرپور حمایت بھی کی ہے۔ دونوں ملکوں نے آج تک کبھی اندرونی سیاسی تبدیلیوں یا بیرونی طاقتوں کے فسادات کو باہمی تعلقات پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی لیکن کچھ عرصہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی کی بجائے سردمہری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اگرچہ حکومتی اور سفارتی سطح پر اس کا اظہار کم ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ ترین قیادت کی سطح پر وفود کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کا حالیہ دورہ ایران ہے۔
اسلام آباد میں ای سی او سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر ایران کے صدر حسن روحانی پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور دو سال قبل وزیراعظم نوازشریف نے بھی تہران کا دورہ کیا تھا۔ اس طرح تجارت توانائی بارڈر سکیورٹی اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام جیسے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کے لیے وزارتی سطح پر وفود کا تبادلہ ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں فروغ کی بجائے کمی واقع ہو رہی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام کی بنا پر جو اقتصادی پابندیاں لگائی گئی تھیں ان سے قبل پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 1.6 بلین ڈالر تھا جو پابندیوں کی وجہ سے کم ہو کر 300 ملین ڈالر رہ گیا۔ پچھلے سال دونوں ملکوں نے آئندہ پانچ برسوں میں دوطرفہ تجارت کے حجم کو پانچ سال کے اندر پانچ بلین ڈالر تک پہنچانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن ابھی تک اس سمت کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہوئی۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تجارت بلکہ متعدد دیگر شعبوں مثلاً توانائی‘ زراعت‘ انفراسٹرکچر اور تیل صاف کرنے والے کارخانوں کے قیام میں تعاون کے بے شمار مواقع موجود ہیں لیکن ان مواقع سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔ اس سلسلے میں عدم توجہی کی سب سے نمایاں مثال پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر ہے جس کے ذریعے ایرانی قدرتی گیس کو 2775 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے پاکستان اور پھر پاکستان سے آگے بھارت‘ بنگلہ دیش اور چین تک پہنچانے کا منصوبہ شامل تھا۔ ان چاروں ملکوں کو اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے گیس اور تیل درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ اگرچہ گیس اور تیل کے ذخائر وسطی ایشیاء اور خلیج فارس کے دیگر ملکوں مثلاً قطر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور عراق میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن جغرافیائی طور پر ایران‘ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کے لیے پائپ لائن کے ذریعے گیس حاصل کرنے کا سے آسان اور کم خرچ ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب 1950ء کی دہائی کے اوائل میں ایک پاکستانی انجینئر نے ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے کا تصور پیش کیا تو اسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ تاہم اس کی تعمیر کو ایک عرصہ تک نظرانداز رکھا گیا۔ 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب بھارت میں کانگرس کی جگہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت کے ایک رکن اٹل بہاری واجپائی جن کے پاس اُس وقت اپنے ملک کی وزارت خارجہ کا قلمدان تھا۔ پاکستان کے دورے پر آئے اور اُنہوں نے پاکستان کے راستے بھارت کو وسطی ایشیاء اور مغربی ایشیاء یعنی ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے کی سہولت کی درخواست کی۔ لیکن پاکستان نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بھارت کو یہ سہولت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ 1990ء کی دہائی میں جب پاکستان کو گیس کے ذخائر میں کمی کا سامنا کرنا پڑا اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے گیس کی درآمد کو ناگزیر سمجھا جانے لگا تو پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر پر ایران سے رابطہ کیا گیا۔ ان روابط اور بات چیت کے نتیجے میں فروری 1999ء میں ابتدائی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اسی دوران بھارت نے اس میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ ابتدا میں پاکستان بھارت کی شمولیت کے حق میں نہیں تھا لیکن 2004ء میں ایران کے زور دینے پر پاکستان نے منصوبے میں بھارت کی شمولیت کی مخالفت ترک کر دی اور یہ فیصلہ ہوا کہ
ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس بھارت کو بھی سپلائی کی جائے گی۔ 2008ء میں ایران نے انکشاف کیا کہ اس پائپ لائن سے چین بھی گیس حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ اُس برس ایران نے بنگلہ دیش کو بھی اس منصوبے میں شرکت کی دعوت دے دی۔ گیس پائپ لائن کے ذریعے نہ صرف ایران اور پاکستان بلکہ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے علاوہ چین کے درمیان اقتصادی تعاون کے فروغ کو پیش نظر اس منصوبے کی سیاسی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جانے لگا۔ اسی بناء پر ایران نے اسے ''امن پائپ لائن‘‘ کا نام دیا اور پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اسے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی (CBM) کا سب سے اہم فیصلہ قرار دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ منصوبہ مختلف مسائل کا شکار ہونے لگا۔ سب سے پہلے اس کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کی عدم دستیابی تھی۔ ایران نے اپنے حصے کی تعمیر کرنے کے علاوہ پاکستان کو بھی اس کی تعمیر میں مدد دینے کی پیشکش کی۔ اس کے علاوہ اس پائپ لائن کے ذریعے فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت کے تعین میں بھی فریقین کے درمیان طویل مذاکرات ہوتے رہے۔ لیکن اس منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی دبائو ہے اور اس سلسلے میں امریکہ کی طرف سے کھلم کھلا مخالفت ہوتی رہی ہے۔ امریکی دبائو کے تحت ہی بھارت نے 2009ء میں اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اگرچہ بہانہ گیس کے مہنگا ہونے اور سکیورٹی کے غیر تسلی بخش انتظامات کا بنایا گیا۔ تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ 2006ء میں امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کے بعد بھارت کے لیے واشنگٹن کے دبائو کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ اگرچہ پاکستان کی طرف سے اب بھی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اب بھی اس منصوبے کا سخت مخالف ہے اور پاکستان بدستور اس کے دبائو کا شکار ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو اس منصوبے سے الگ ہونے کی صورت میں ایک اور گیس پائپ لائن منصوبے (TAPI) کی تعمیر کے لیے ورلڈ بینک ایشیا ترقیاتی بینک کی طرف فنڈز مہیا کرنے کی بھی پیشکش کی تھی۔ ایک موقعہ پر امریکہ نے پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے مارچ 2013ء میں اس منصوبے کی تعمیر کے لیے باقاعدہ معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ 11 مارچ 2013ء کو اس منصوبے کے تعمیر کی افتتاحی تقریب میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر احمد نژاد نے شرکت کی تھی۔ لیکن گزشتہ چار برسوں سے اس منصوبے پر مزید کام عملی طور پر بند ہے۔ حالانکہ ایران نے اپنی طرف پائپ لائن کی تعمیر کو جو کہ اس کی کل لمبائی کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے مکمل کر لیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس منصوبے کی مخالفت میں اب امریکہ کے ساتھ سعودی عرب بھی شامل ہو گیا ہے۔ ایران کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے تناظر میں سعودی عرب پاکستان پر اس منصوبے سے علیحدگی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے ابتداء میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے گرم جوشی دکھائی تھی لیکن اب اس سمت کسی اہم پیشقدمی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس کی وجہ سے یا تو ایران اس منصوبے سے الگ ہو جائے گا یا پھر یہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ دونوں صورتوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان برسوں سے قائم اعتماد‘ دوستی اور تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اس خطے کی جیو پالیٹکس پر اس کا جو اثر پڑے گا وہ الگ ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کے ان تمام امکانات کا جائزہ لے کر اس منصوبے پر کوئی فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں