بھارت کے 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں جب بی جے پی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نامزد کیا تو ملک کے طول و عرض میں جمہوری اور اعتدال پسند سوچ کے حامل دانش وروں‘ سیاست دانوں اور صحافیوں نے اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے امن اور قومی یک جہتی کے لئے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نریندر مودی کٹر قوم پرست ہندو ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ 2002ء میں ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کا سرگرم رکن رہ چکا ہے اور اس کی سیاست اسی انتہا پسند ہندو تنظیم کے فلسفے کے تابع ہے۔ بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے عزم کو اس نے کبھی چھپا کر نہیں رکھا تھا۔ اعتدال پسند اور سیکولر سوچ کے حامل عناصر کا موقف تھا کہ نریندر مودی کی ذات متنازع ہے۔ گجرات میں بطور وزیر اعلیٰ اس کا کردار گھنائونا ہے اور اس کی سیاست انتہا پسند نظریے پر مبنی ہے‘ اس لئے اگر ایسے شخص کو بھارت کا وزیر اعظم چنا گیا تو ملک میں نفاق‘ اختلافات اور جھگڑے پیدا ہوں گے۔ بھارت کے عوام کی اکثریت نریندر مودی کے ان ''اوصاف‘‘ سے ناواقف نہیں تھی‘ لیکن انتخابات سے قبل دس برس تک متواتر حکومت کرنے والی کانگریس پارٹی نے اپنی نااہلی اور بدنظمی کی بدولت بھارت کی معیشت کا ایسا برا حال کر دیا تھا کہ مہنگائی زوروں پر تھی اور بے روزگاری عام تھی۔ ملک کی آبادی کا 60فیصد کے قریب حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ لیکن ان میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی نوکریاں دستیاب نہیںہو رہی تھیں۔ حکمران جماعت کو متعدد سکینڈلز کا سامنا تھا۔ ایسے میں نریندر مودی ان کے سامنے آیا اور بھارت کے غریب اور مہنگائی اور بے روزگاری کے شکار لوگوں کو پیش کش کی کہ اگر وہ اسے ووٹ دیں گے تو وہ ملک سے مہنگائی ختم کر دے گا۔بے روزگاروں کو ملازمتیں حاصل ہوں گی اور ملکی معیشت ‘ جو کانگریس کے عہد میں سخت کساد بازاری کا شکار ہو چکی تھی‘ کو واپس اپنے پائوں پر کھڑا کر دے گا۔ بھارت کے سرمایہ دار طبقے اور میڈیا نے اس کے حق میں مہم چلائی‘ جس کے نتیجے میں بی جے پی کو انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بن گیا۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نریندر مودی عوام سے کئے گئے وعدے بھول گئے‘ جس کے نتیجے میں نہ تو ملک میں مہنگائی کم ہوئی اور نہ ہی نوجوانوں کے لئے روزگار کا اہتمام ہی کیا جا سکا‘ لیکن اس نے اپنے اصلی یعنی آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
یوں تو گزشتہ تین برسوں میں متعدد ایسے اقدامات اور پالیسیوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے‘ جو وزیر اعظم مودی کی حکومت نے بھارت کو ایک خالص ہندو ریاست بنانے کے لئے مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلا ف کئے ‘ لیکن گائے بھینس اور دیگر مویشیوں کے ذبح کرنے پر پابندی کا قانون نافذ کرکے نریندر مودی کی حکومت نے ایک ایسا اقدام کیا ہے‘ جس نے بھارت میں نفاق‘ لڑائی اور جھگڑوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ مودی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی انتہا پسند ہندوئوں خصوصاً آر ایس ایس اور بجرنگ دل نے گائو کشی کی آڑ میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور انہیں ہراساں کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ اس مہم کے دوران میں متعدد مسلمانوں کو گائے کا گوشت گھر میں رکھنے کے جھوٹے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے بعض کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بھارتی میڈیا میں اس فاشسٹ روئیے کے خلاف آواز بھی اٹھائی گئی اورحکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ گائو کشی کی روک تھام کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کارروائیاں فوری طور پر بند کی جائیں‘ لیکن مودی سرکار خاموش تماشائی بنی رہی‘ بلکہ بالواسطہ طور پر ان غیر انسانی اور غیر جمہوری کارروائیوں کی حمایت کی۔ 23مئی کو مودی سرکار نے سرکاری طور پر مویشیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر گائے‘ بھینس اور دیگر مویشیوں کو ذبح کرنے پر ملک گیر پابندی لگا دی‘ اور اس پابندی کی خلاف ورزی پر عمر قید تک کی سزا بھی مقرر کر دی۔ بظاہر یہ اقدام مودی سرکار نے اپنے سیاسی اور روحانی گرو یعنی آرایس ایس کو خوش کرنے اور مسلم مخالف مہم کو تیز کرنے کے لئے کیا ہے‘ لیکن اس قانون کے منظور ہوتے ہی بھارت کے طول و عرض میں اس کے خلاف احتجاج بلکہ خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دہلی میں ایک عدالت نے اس قانون کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔ جنوبی بھارت کی ایک اہم ریاست تامل ناڈو میں بھی ہائی کورٹ نے اس قانون پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ بھارت کی ایک اہم ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے تو اس قانون کو کھلے عام مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اس قانون کو وفاقیت (Federalism) کی کھلی خلاف ورزی اور وفاقی اکائیوں یعنی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ اسی لئے انہوں نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ اقدام غیرقانونی اور غیر آئینی ہے‘ اور اس کے خلاف انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی بھارت کی ایک ریاست کیرالہ میں تو اس قانون کے
خلاف عوام نے جلوس بھی نکالے اور اس کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے ''بیف فیسٹیول ‘‘کا انعقاد بھی کیا۔ اس قانون کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے کیرالہ میں لوگوں نے سرعام ایک بچھڑے کو ذبح کیا اور پھر اس کے گوشت سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ اس قانون کے خلاف عوامی احتجاج کے آگے بند باندھنے کے لئے آر ایس ایس کے منظم جتھے غنڈہ گردی پر اتر آئے ہیں اور کئی مقامات پر انہوں نے بیف پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ مودی کی سرکار کے اس فیصلے سے بھارتی عوام دو متحارب گروپوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ ایک گروہ ان ہندوئوں کا ہے جو اس قانون کوسارے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس گروہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور ہندو انتہا پسند تنظیموں یعنی آر ایس ایس‘ شیوسینا‘ بجرنگ دل اور ہندو وشوا پریشد کے تربیت یافتہ مسلح کارکن اس کا ہراول دستہ ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو اس اقدام کو بھارت میں مذہب کے نام پر ایک مخصوص طبقے کی آمریت کو مضبوط کرنے کی پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ اس گروہ کی طر ف سے اس فیصلے کی مخالفت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عوام کی ایک بڑی تعداد پروٹین سے مالا مال اہم غذا سے محروم ہو جائے گی‘ کیونکہ بھارت میں بیف دیگر گوشت کے مقابلے میں سستا ‘اور غریب لوگوں کی من پسند خوراک ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے کئی علاقوں مثلاً جنوبی حصے اور قبائلی علاقوں میں گائے کا گوشت عوام کی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان علاقوں میں صدیوں سے گائے کا گوشت کھایا جاتا ‘ اس لئے ایسے علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر‘ جہاں گائے کا گوشت کھانا ممنوع نہیں‘ ایسے قانون کا اطلاق قدرتی انصاف کے اصولوں کے خلاف
اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔بھارت کے پڑھے لکھے‘ باشعور اور اعتدال پسند سوچ کے حامل لوگ مودی سرکار کے اس اقدام کو ملک کی سیاسی اور سماجی اقدار اور روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ان کا موقف یہ ہے کہ بھارت مختلف مذاہب کے پیروکاروں اور بے شمار لسانی گروپوں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کا مسکن ہے۔ اس لئے یہاں آبادی کے ایک حصے‘ خواہ اس کا حجم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ کی مذہبی اقدار کو آبادی کے باقی تمام حصوں پر زبردستی ٹھونسنا نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے بلکہ بھارت کے سیاسی نظام کے بنیادی جمہوری اصولوںکے بھی خلاف ہے۔
سب سے زیادہ تشوش ناک پہلو مرکز اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ بھارت پہلے ہی ایک برائے نام وفاقی ریاست ہے‘ جس میں اختیارات ریاستوں کے مقابلے میں مرکز کے پاس زیادہ ہیں۔ جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے مرکز نے مختلف حیلے بہانوں سے ریاستوں کے پاس بچے کھچے اختیارات بھی سلب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے ان اقدامات سے ریاستوں میں یہ خدشہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی اپنی اصل آئیڈیالوجی کے تحت بھارت کو ایک مکمل وحدانی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہے‘ کیونکہ اس کے ذریعے ہی ملک کو ایک ہندو ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ بھارت کے آئین کے تحت ریاستوں کو جو محدود پیمانے پر اندرونی خود مختاری دی گئی ہے‘ گائو کشی پر پابندی کا قانون اور ریاستوں کی رضا مندی کے بغیر اس کا سارے ملک پر اطلاق ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر اس میں ریاستوں کی جانب سے مزاحمت موثر ثابت نہ ہوئی تو نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی طرف سے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی سمت مزید اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔