پاکستان کی موجودہ چارجڈ (Charged) اور ہائی لی پولیرائزڈ (Highly Polarised) سیاسی صورتحال میں اگر تمام فریق کسی ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں تو وہ یہ کہ اس ملک میں احتساب ہوا ہے تو صرف سیاست دانوں کا۔ اس ضمن میں پاکستان کے پانچویں اور 1956 کے آئین کے تحت دوسرے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کا نام لیا گیا ہے۔ انہیں پاکستان کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے دور میں گرفتار کیا گیا تھا‘ اور کرپشن کے الزامات کے تحت ہی انہیں سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں صرف دل کے عارضے کی وجہ سے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی اور وہ 1963 میں بیروت میں انتقال کر گئے تھے۔ عوامی لیگ کے رہنما اور بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمٰن‘ ایوب خان کو اپنے لیڈر کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے رہے‘ لیکن سہروردی پاکستان کے پہلے یا واحد سیاسی لیڈر نہیں تھے‘ جنہیں آمرانہ دور میں احتساب کا نشانہ بننا پڑا۔ ان کے علاوہ بھی کئی سیاست دان ہیں‘ جنہیں صرف آمریت میں ہی احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ بلکہ سول حکومتوںکے دور میں بھی احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اور اس عمل میں صرف اسٹیبلشمنٹ ہی ملوث نہیں رہی بلکہ ماضی کا عدالتی نظام بھی کردار ادا کرتا رہا۔
اپریل 1953 کی ایک صبح گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو شام کی چائے پر ملاقات کی دعوت موصول ہوئی۔ اس وقت کے سربراہِ مملکت یعنی گورنر جنرل اور موجودہ صدرِ پاکستان میں اختیارات کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ چونکہ پاکستان کا ابھی اپنا آئین تشکیل نہیں پایا تھا اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 چند تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان میں عبوری آئین تھا‘ اس لئے گورنر جنرل غلام محمد کو اپنے عہدے کے تقریباً وہ تمام اختیارات حاصل تھے‘ جو آزادی سے پہلے انگریز گورنر جنرل کو حاصل تھے۔ ان میں بغیر کوئی وجہ بتائے کابینہ اور وزیر اعظم کو
برطرف کرنے کا اختیار بھی شامل تھا۔ پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف جی ڈبلیو چودھری کے مطابق ابھی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے چائے کا پورا کپ بھی نہیں پیا تھا کہ گورنر جنرل کی طرف سے انہیں چٹ موصول ہوئی کہ انہیں ابھی اور اسی وقت وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ وزیر اعظم ناظم الدین نے ابھی چند روز پہلے ہی اسمبلی سے بجٹ منظور کروایا تھا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اسمبلی کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ پھر ان کی برطرفی کی کیا وجہ تھی؟ مشہور قانون دان حامد خان نے اپنے کتاب ''پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ‘‘ میں لکھا ہے کہ اس برطرفی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے دفاعی بجٹ میں ایک تہائی کٹوتی کی سفارش کی تھی۔ خواجہ ناظم الدین کے جانشین محمد علی بوگرہ کی قیادت میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے نئے دستور کا مسودہ اکتوبر 1954میں تیار کر لیا تھا۔ صرف اسمبلی سے اس کی منظوری باقی تھی اور اس کے لئے پندرہ روز بعد اسمبلی کا خصوصی اجلاس بھی بلایا گیا تھا‘ جہاں اس مسودے کو قانونی شکل دینے کے لئے ووٹنگ ہونا تھی‘ لیکن اس سے قبل ہی 24 اکتوبر کو گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ امریکی مصنف ایلن میگراتھ (Allen McGrath) کے مطابق گورنر جنرل کے اس اقدام کو اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی حمایت حاصل تھی۔ گورنر جنرل کے اس اقدام کو جب سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو کالعدم قرار دیا‘ کیونکہ گورنر جنرل کو آئین سازاسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو تو معطل کر دیا‘ لیکن اس اہم قانونی نکتے کو طے کرنے کے لئے کہ کیا اسمبلی کو تحلیل کرنا قانونی تھا یا نہیں اور کیا گورنر جنرل کو اس کا اختیار حاصل تھا‘ یا نہیں‘ سماعت بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ معروف تاریخ دان پروفیسر کے کے عزیز کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس جسٹس محمد منیر نہ صرف برابر گورنر جنرل کے ساتھ رابطے میں رہے‘ بلکہ اسمبلی سپیکر مولوی تمیزالدین خان کے وکیل آئی آئی چندریگر (جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے)کو دلائل دیتے وقت ٹوکتے بھی رہے۔ حسین شہید سہردوری سے ایوب خان کو کیا پُرخاش تھی؟ بیگم شائستہ اکرام اللہ کے مطابق مارشل لا سے پہلے سہروردی اور جنرل ایوب کے ذاتی تعلقات نہ صرف قریبی بلکہ خوشگوار بھی تھے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایوب خان کیوں ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے اور یہ تک کہہ ڈالا کہ ''میں تمہیں قبر تک پہنچا کے دم لوں گا‘‘۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ سہروردی پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے حامی تھے اور ایوب خان کو شک تھا کہ مشرقی پاکستان میں اس بنیادی جمہوری نظام اور صدارتی طرزِ حکومت کی مخالفت کے پیچھے سہروردی کا ہاتھ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس مولوی محمد مشتاق نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو رویہ روا رکھا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ بار بار تضحیک اور توہین کا نشانہ بنانے کے علاوہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور 1973 کے آئین کے خالق‘ قائد اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہردلعزیز رہنما کو ایک جھوٹے مقدمے میں ''سب سے بڑا ملزم‘‘ (Principal accused) کہا گیا۔ اس کے بعد مزید توہین کے لئے انہیں ''عادی جھوٹا‘‘ (Compulsive Liar)کا خطاب دیا گیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے ''عادی جھوٹے‘‘ کا الزام عدالت کے ریکارڈ سے حذف کرا دیا‘ مگر لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے دی گئی موت کی سزا برقرار رکھی۔
بات کا آغاز چونکہ سہروردی سے ہوا تھا‘ اس لئے پاکستان کے اس نامور سیاست دان کے بارے میں قارئین کو مزید بتانا مفید ثابت ہو گا۔ سہروردی جب ولایت سے قانون کی ڈگری حاصل کرکے آئے تو بنگال میں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے سیاست خصوصاً مسلمانوں کی فلاح اور تحفظ کے لئے سرگرمیوں میں حصہ لینے کو ترجیح دی۔ 1947 میں کانگریس کی ہٹ دھرمی کے باعث پنجاب کی طرح بنگال کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ اس سے مغربی بنگال خصوصاً کلکتہ میں مسلمانوں کی املاک اور زندگیوں کے لئے بڑے سنگین خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ مغربی بنگال سے مسلم لیگ کے بیشتر رہنما بھاگ کر ڈھاکہ آ گئے تھے۔ سہروردی نے کلکتہ سے آخری مسلمان کے انخلا تک شہر میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا اور بڑی بہادری سے ہندو غنڈوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ آزادی کے بعد مسلم لیگ کی مرکزی قیادت سے ان کی نبھ نہ سکی اور انہوں نے 1948 میں ہی اپنی الگ پارٹی بنا لی‘ جس کا نام پہلے جناح لیگ تھا‘ بعد میں عوامی لیگ کے نام سے مشہور ہوئی۔
اختلافات کے باوجود سہروردی نے 1956 کے آئین کی بنیاد ''مساوی نمائندگی‘‘(Parity) کو مشرقی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے منوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1956 میں جب چودھری محمد علی نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تو سہروردی‘ جو اس وقت اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے‘ کو صدر سکندر مرزا نے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کر دیا۔ سہروردی ایک سیکولر سوچ رکھنے والے محب وطن سیاست دان تھے۔ انہوں نے نہ صرف امریکہ کی سرپرستی میں قائم کئے جانے والے دفاعی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کی بلکہ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے حق میں مہم بھی چلائی‘ حالانکہ ان دونوں مسائل پر ان کی پارٹی کا موقف مختلف تھا۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی طرح عام لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال گھوم رہا ہے کہ آخر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو ہی احتساب کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اس سلسلے میں پارٹی کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں سابق صدر جنرل مشرف کو غداری کے الزام میں عدالت کے کٹہرے میں لانے کی سزا دی جا رہی ہے‘ لیکن میاں محمد نواز شریف کا جرم اس سے کہیں بڑا ہے۔ جلا وطنی سے واپس آ کر وہ برملا کہہ چکے ہیں کہ ''ایک دفعہ یہ طے ہو جانا چاہئے کہ اس ملک پر حکمرانی کا حق عوام کو ہے یا جرنیلوں کو‘‘۔ 2013 کے الیکشن سے قبل انہوں نے اعلان کیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں وہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھاررت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں گے۔ انتخابات میں جب عوام نے انہیں بھاری اکثریت سے چنا تو انہوں نے کہا کہ یہ عوام کی طرف سے پاکستان کی ہمسائیگی کو پُرامن بنانے کے لئے ایک مینڈیٹ ہے۔ اب خود ہی سوچئے کہ پاکستان کے مخصوص تاریخی پس منظر میں کسی سیاست دان کا اس سے بڑا جرم اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور کیا اسے اس کی سزا نہیں ملنی چاہئے؟ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی اور سیاست دان نے کبھی ایسی جسارت نہیں کی۔