''دہشت گردی کا صفایا کر دیا گیا ہے‘‘ ''دہشت گردوں کے قدم اکھڑ چکے ہیں اور انہیں پناہ کے لئے کہیں جگہ نہیں مل رہی‘‘ ''دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور اب بس بچے کھچے عناصر باقی ہیں‘‘ ''دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے ہیں اور اب وہ کسی بڑی کارروائی کے قابل نہیں رہے‘‘۔ یہ وہ چند بیانات اور دعوے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہم حکمرانوں اور متعلقہ حکام کی زبانی سنتے چلے آ رہے ہیں۔ خاص طور پر جون 2014 میں شروع کئے گئے آپریشن ضربِ عضب اور حال ہی میں شروع ہونے والے آپریشن ردالفساد کے بعد اس قسم کے بیانات میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ اب یہ دعوے پہلے کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کے ساتھ کئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد ان دعووں کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اور وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں کی جانب سے کامیابیوں کے دعووں کے باوجود وہ اب بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے معصوم شہریوں اور ان کے (دہشت گردوں کے) خلاف برسرِ پیکار فوج اور پولیس کے بہادر سپاہیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 23 جون کو ملک کے تین شہروں یعنی کراچی‘ کوئٹہ اور کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں دہشت گردوں نے کارروائیاں کرکے اپنی طاقت دکھائی ہے۔ ان تین مقامات پر دہشت گردانہ حملوں سے جو صورتحال پیدا ہوئی وہ کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ سب سے زیادہ ہولناک مناظر پارا چنار میں دہشت گردوں کے حملوں سے ہونے والی تباہی کے تھے‘ کیونکہ دھماکے کے وقت لوگ کھلے بازار سے افطاری کے لئے ضروری اشیا خریدنے میں مصروف تھے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاکت سے دوچار کرنے کے لئے پہلے دھماکا کیا گیا‘ جو بعض حکام کے مطابق ایک خود کش حملہ تھا۔ اس دھماکے کے بعد جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد جائے وقوعہ پر جمع ہو گئی تو دوسرا دھماکا کر دیا گیا۔ ان دو دھماکوں سے صرف پارا چنار میں 70 کے قریب معصوم شہری شہید ہوئے۔ سینکروں کو زخم آئے اور وہ اب ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کراچی میں دن دیہاڑے ایک ریسٹورنٹ میں افطاری کرتے ہوئے چار پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا گیا۔ حملہ آور‘ جو موٹر سائیکل پر سوار تھے‘ واردات کے بعد بڑے اعتماد کے ساتھ غائب ہو گئے۔ تیسرا واقعہ کوئٹہ میں وقوع پذیر ہوا‘ جہاں آئی جی پولیس کے دفتر کے سامنے خود کش دھماکے میں سات پولیس اہلکاروں سمیت 17 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی‘ خود کش دھماکوں‘ بم بلاسٹ اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو یکسر اور مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک‘ جہاں سکیورٹی کا جدید ترین اور موثر نطام موجود ہے‘ میں بھی اس قسم کے واقعات کو ختم نہیں کیا جا سکا اور وہاں بھی دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے ذریعے تباہی پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیاں گزشتہ دس برسوں سے متواتر جاری ہیں اور تمام تر کوششوں کے باوجود ان پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ خاص طور پر ''ضرب عضب‘‘ نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل اور آپریشن ردالفساد کے بعد بھی اگر دہشت گردی کی کارروائیاں اسی طرح جاری ہیں تو عوام کے ذہنوں میں انسدادِ دہشت گردی مہم کے بارے میں کئی سوالات ابھر سکتے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم صحیح سمت میں جا رہی ہے؟ اس سوال کے ابھرنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام ریاستی اداروں کے تعاون اور قومی وسائل کو وقف کرنے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہو سکے۔ بیرونی دنیا بھی مطمئن نہیں۔ اور ہمارے ہمسایہ اور دوست ممالک اس مہم میں ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے لئے ان سوالات کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنا اور اس جواب کی روشنی میں انسدادِ دہشت گردی کی مہم میں حکمتِ عملی اور طریق کار میں تبدیلی لانا انتہائی ضروری ہے‘ کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں نہ صرف دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے‘ بلکہ ہماری معیشت ملکی سالمیت اور قومی آزادی کو سنگین خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس لئے دہشت گردی اب کسی ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں رہا۔ اگر کسی ملک میں دہشت گردی قابو سے باہر ہو جاتی ہے تو ارد گرد کے ممالک بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کا پیدا ہو جانا قدرتی ہے۔ 23 جون اور اس سے قبل رواں سال کے ابتدائی مہینوں کے دوران میں دہشت گردی کے جتنے واقعات رونما ہوئے‘ ان سے دہشت گردوں کی منصوبہ بندی‘ حکمتِ عملی اور طریقِ کار کے بارے میں کئی ایسے پہلو منظر عام پر آئے ہیں‘ جنہیں پیشِ نظر رکھ کے دہشت گردوں کے خلاف ایک موثر اور کامیاب حکمتِ عملی وضع کی جا سکتی ہے‘ مثلاً 23 جون کو وقوع پذیر ہونے والے تین واقعات میں سے دو (کراچی اور کوئٹہ) میں پولیس کو ٹارگٹ کیا گیا۔ کراچی میں ایک ہوٹل میں بیٹھے ہوئے پولیس اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا‘ جبکہ کوئٹہ میں دہشت گردوں نے آئی جی پولیس کے دفاتر کے سامنے دھماکا کیا‘ جس سے دیگر افراد کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور پولیس کے سات سپاہی بھی شہید ہو گئے۔ اسی طرح امسال 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر جو خود کش دھماکا کیا گیا‘ اس میں بھی پولیس ہی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں سو سینئر پولیس افسروں کے علاوہ چار مزید پولیس افسران شہید ہو گئے تھے۔ اگر ہم دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں‘ جن میں پولیس کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے اور سب سے اہم کردار ہماری افواج کے بہادر جوان اور افسران ادا کر رہے ہیں اور انہی کی بدولت دہشت گردی کی یلغار کو کسی حد تک روکا گیا ہے‘ لیکن اس جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کرنے اور قربانیاں پیش کرنے میں ہماری پولیس کے سپاہی اور افسران بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
ایک سروے کے مطابق 2007 سے اب تک 3700 سے زائد پولیس اہلکار 450 کے قریب خود کش حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے بعد دہشت گردوں نے اپنے حملوں کا رخ فوج اور فوجی تنصیبات کے بجائے پولیس اور پولیس کی تنصیبات کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس لئے اب قانون نافذ کرنے والی دیگر فورسز کے مقابلے میں پولیس کو زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردوں کی طرف سے پولیس کو نشانہ بنانے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں مشتبہ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے اراکین کے خلاف جو کریک ڈائون جاری ہے‘ اس میں فوج اور رینجرز کے ہمراہ پولیس ہراول دستے کا کام کر رہی ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے پولیس اور سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کو اہم کردار ادا کرنا پڑے گا‘ لیکن جس آسانی سے دہشت گرد پولیس اہلکاروں کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں‘ اور واردات کے بعد جس طرح سکون کے ساتھ جائے واردات سے غائب ہو جاتے ہیں‘ اس کے پیش نظر ہمیں پولیس اور سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کو مزید مضبوط کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں پنجاب میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے‘ مگر دیگر صوبوں‘ خصوصاً سندھ اوربلوچستان میں اس اہم شعبے میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کئے گئے۔ پاکستان میں فرقہ واریت اور دہشت گردی ایک ساتھ چلتے آئے ہیں۔ نائن الیون سے پہلے اور افغانستان پر امریکی حملے سے قبل بھی ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار تھا۔ اس دہشت گردی کی نوعیت فرقہ وارانہ تھی اور اسے پاکستان میں پھیلانے کے لئے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کو بطور اڈا استعمال کیا جاتا تھا۔ اب طالبان کی افغانستان میں حکومت نہیں رہی‘ مگر کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی شکل میں ان کے ہم نوا پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں یہ تنظیمیں اکثر ملوث پائی گئی ہیں۔ اس کی مثال بلوچستان میں ہزارہ برادری اور پارا چنار میں شیعہ مسلک کے حامل لوگوں پر متواتر خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی دی جا سکتی ہے۔ پارا چنار‘ جہاں 23 جون کے خود کش حملوں میں 60 سے زائد افراد شہید ہوئے‘ اس سے پہلے بھی کئی بار اس قسم کے حملوں کا نشانہ بن چکا ہے اور ہر حملے کے بعد سکیورٹی اقدامات سخت کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس پر مقامی لوگ بجا طور پر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ سکیورٹی کے سخت انتظامات اور قدم قدم پر چیکنگ کے لئے پوسٹوں کی موجودگی میں دہشت گرد کیسے اپنی مذموم وارداتوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ یقیناً ان دہشت گردوں کو اندر سے کچھ ہم خیال لوگوں کی حمایت حاصل ہو گی۔ اس لئے ہماری انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی میں ایسے عناصر کا پتا چلانا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی شامل ہونا چاہئے‘ جو ہماری صفوں میں گھس کر دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں۔