تازہ ترین مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے اعلان کے بعد اگر بعض سیاسی پارٹیوں نے ان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس لئے کہ پاکستان کی ہر مردم شماری سیاسی طور پر متنازعہ رہی ہے۔ حالیہ مردم شماری کو 2008ء میں منعقد ہونا تھا کیونکہ ملک کے آئین کے مطابق ہر دس سال بعد مردم شماری کا انعقاد لازمی ہے‘ لیکن اس میں 9 برس کی تاخیر کی گئی۔ اس کی بڑی وجہ بھی سیاسی تھی۔ اگرچہ چند انتظامی مشکلات بھی آڑے آ رہی تھیں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں 2018ء کے انتخابات سے قبل مردم شماری کی خواہاں نہیں تھیں‘ کیونکہ ہر مردم شماری کے بعد انتخابی حلقہ بندیوں کو از سر نو متعین کیا جاتا ہے اور ان سیاسی پارٹیوں کو موجودہ حلقہ بندیاں اپنے مفاد میں نظر آتی ہیں۔ وہ مردم شماری کو معرضِِ التوا میں ڈال کر اپنے سیاسی مفاد کا تحفظ چاہتی تھیں۔ سیاست کا دوسرا نام معاشرے میں موجود مختلف طبقات اور اداروں کے درمیان وسائل کی تقسیم ہے۔ پاکستان میں اس مقصد کیلئے قائم کردہ میکانزم کا نام نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ ہے‘ جو عام طور پر ہر بجٹ سے پہلے مرکز اور صوبوں کے مابین‘ اور پھر صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا اعلان کرتا ہے۔ جس فارمولے کے تحت یہ وسائل تقسیم کئے جاتے ہیں‘ چونکہ اس میں آبادی کا عنصر سب سے بڑا ہے‘ اس لئے لسانی بنیادوں پر منظم قومی تشخص کی حامل قومیتوں کیلئے مردم شماری کے نتائج بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سے انہیں اپنی عددی قوت کا پتہ چلتا ہے اور اگر ان نتائج کی روشنی میں انہیں اپنی تعداد کے کم ہونے کا اشارہ ملتا ہے تو وہ ان نتائج کو مشکوک سمجھتی ہیں‘ یا ان کے مطابق اپنی سیاسی حکمتِ عملی کی تشکیل کرتی ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری انہی وجوہ کی بنا پر متنازعہ تھی‘ کیونکہ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے دو صوبوں یعنی خیبر پختونخوا (سابق صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں آ کر آباد ہو چکی تھی۔ بلوچستان میں ان کی بڑی تعداد میں آمد اور آبادکاری سیاسی مسئلہ بنتی جا رہی تھی‘ کیونکہ اس صوبے میں دو بڑی قومیتیں... پختونخوا اور بلوچ آباد ہیں۔ افغان مہاجرین چونکہ پختون تھے‘ اس لئے بلوچ نسل سے تعلق رکھنے والے مردم شماری میں ان کی شمولیت کے خلاف تھے۔ 1998ء میں بہت سے بلوچ علاقوں میں مردم شماری نہیں ہو سکی تھی‘ کیونکہ بلوچوں نے اس مردم شماری پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ افغان مہاجرین کو پختون آبادی کا حصہ گردانتے ہوئے صوبے کی بلوچ آبادی کو اقلیت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی شکایت سندھ کے دیہی علاقوں میں بسنے والے ان سندھیوں کو تھی‘ جو سندھی زبان بولتے ہیں۔ موجودہ مردم شماری اپنے ابتدائی نتائج کے اعلان سے قبل ہی متنازعہ شکل اختیار کر گئی تھی۔ سندھ کی شہری آبادی کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پیہم شکایت کی جا رہی تھی کہ ان کی تعداد کو جان بوجھ کر کم ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالیہ مردم شماری کا آغاز مارچ میں کیا گیا تھا۔ حکومت اس وقت بھی اس کے لئے تیار نہیں تھی‘ لیکن سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم کے ذریعے حکومت کو اسی سال یہ فریضہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا پابند کر دیا تھا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ اگر مردم شماری اس سال نہ ہو سکی تو نئی حلقہ بندیوں کے لئے مناسب وقت نہیں ملے گا۔ اس لئے حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی آپشن نہیں تھا کہ وہ مارچ میں مردم شماری کا آغاز کرے۔ مردم شماری کیلئے درکار افرادی قوت پاک فوج فراہم کرتی رہی ہے۔ چونکہ ہماری فوج کا ایک بہت بڑا حصہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں کئی برسوں سے مصروف ہے‘ اس لئے مطلوبہ تعداد میں فوجی اہلکاروں کی عدم دستیابی بھی مردم شماری میں تاخیر کا بڑا سبب تھی۔ جونہی فوج کی طرف سے مطلوبہ تعداد میں اہلکاروں کی دستیابی کا امکان ظاہر کیا گیا‘ مردم شماری کا عمل شروع ہو گیا۔ حالیہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی گزشتہ 19 برسوں کے دوران تیرہ کروڑ سے بڑھ کر 20 کروڑ 70 لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ اس میں مردوں کی تعداد تقریباً 10 کروڑ 65 لاکھ اور عورتوں کی تعداد تقریباً 10 کروڑ 14 لاکھ ہے۔ اس طرح یہاں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ پنجاب 11 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ اب بھی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ لیکن دوسرے صوبوں یعنی سندھ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب کی آبادی بڑھنے کی شرح کم ہے‘ یعنی گزشتہ 19 برسوں میں پنجاب کی آبادی میں 2.13 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا‘ جبکہ سندھ اور بلوچستان میں آبادی میں اضافہ کی شرح اس عرصے میں بالترتیب 2.14 اور 3.37 رہی۔ بلوچستان کی آبادی گزشتہ 19 برسوں میں دگنی ہو چکی ہے۔ مردم شماری کے نتائج کا ایک اور دلچسپ پہلو شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق پنجاب میں شہری آبادی صوبے کی کل آبادی کا 36.71 فیصد ہے۔ یعنی پنجاب میں اب بھی63 فیصد سے زائد لوگ دیہات میں رہتے ہیں‘ لیکن سندھ میں دیہی اور شہری آبادی میں توازن موخرالذکر کے حق میں ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق اگر شہری آبادی میں اضافے کی شرح کو ملحوظ رکھا جائے تو پنجاب میں اس کی شرح زیادہ ہے‘ لیکن شہری آبادی کے تناسب میں سندھ سب سے آگے ہے‘ جہاں صوبے کی کل آبادی کا 52.02 فیصد شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ یہ صورتحال مستقبل کی صوبائی سیاست کے لئے اہم مضمرات کی حامل ہے‘ کیونکہ کچھ سیاسی پارٹیاں مثلاً پیپلز پارٹی کو سندھ کے دیہی علاقوں سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں‘ جبکہ بعض دیگر پارٹیوں‘ خصوصاً ایم کیو ایم‘ کی پوزیشن شہری علاقوں میں زیادہ مضبوط ہے۔ سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم لسانی بنیاد پر واقع ہے۔ اس لئے دیہی اور شہری آبادی کے توازن میں تبدیلی‘ لسانی بنیادوں پر سیاست پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں دیہی آبادی کے مقابلے میں شہری آبادی میں اضافے پر تشویش ہے‘ لیکن ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سندھ‘ خصوصاً کراچی میں اردو بولنے والے لوگوں کے خلاف ایک سازش ہے‘ اور اس کے خلاف انہوں نے ایک احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حقائق کچھ بھی ہوں‘ لیکن یہ واضح ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے نتائج سے صرف صوبہ سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام حصوں میں لسانی بنیادوں پر سیاست کو ہوا ملے گی۔ اس لئے کہ آبادی میں کمی یا بیشی کا تعلق صرف وسائل اور محاصل کی تقسیم سے نہیں بلکہ ایک الگ زبان‘ ثقافت اور روایات پر مبنی قومی تشخص بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ جن صوبوں میں شہری اور دیہی توازن اول الذکر کے حق میں جا رہا ہے‘ وہاں ایسی سیاسی پارٹیاں‘ جن کا ووٹ بینک شہری علاقوں میں ہے‘ آئندہ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہیں۔ مجموعی طور پر اگرچہ اب بھی پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی انتخابی سیاست پر دیہات میں رہنے والے لوگوں کی خواہشات اور مسائل اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں شہری آبادی میں اضافے کی شرح بڑھ رہی ہے۔ 1951ء میں پاکستان کی پہلی مردم شماری کے نتائج کے مطابق یہ شرح 17.8 فیصد تھی‘ جو 1998ء میں بڑھ کر 32.5 ہو چکی تھی۔ 2017ء کی مردم شماری سے اس شرح میں مزید اضافے کا صاف مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ملکی سیاست پر شہری علاقوں کی چھاپ زیادہ گہری ہو گی۔ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے‘ جہاں دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرکے شہروں میں سکونت پذیر ہونے والے لوگوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ جب تک یہ صورتحال رہے گی‘ لوگوں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرتی رہے گی اور اس کے نتیجے میں ملک کی سیاست میں بعض ناگزیر تبدیلیاں آتی رہیں گی۔