اگرچہ صدر ٹرمپ کی تقریر سے پیدا شدہ غیر یقینی اور ہیجانی صورتحال میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی‘ اور امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے افغانستان میں مزید امریکی فوجی تعینات کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘ تاہم سفارتی سطح پر چند ایسے مثبت اقدام کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں‘ جن کے پیش نظر نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بھی موجودہ کشیدگی میں کمی کی امید کی جا سکتی ہے۔ ان اقدامات میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کا اپنے پاکستانی ہم منصب جناب ممنون حسین کے نام ایک پیغام بھی شامل ہے‘ جو انہوں نے عیدالاضحی کے موقعہ پر بھیجا۔ اس پیغام میں افغان صدر نے اپنے ملک میں دیرپا امن‘ استحکام اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اچھے تعلقات ان کی حکومت کا قومی ایجنڈا ہے اور وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ اسلام آباد‘ افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور قیام امن میں کردار ادا کرے۔ افغان صدر کی پیشکش کا وزیر خارجہ خواجہ آصف نے مثبت اور حوصلہ افزا جواب دیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کی صورتحال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں امن‘ استحکام کا خواہاں رہا ہے اور نہ صرف دو طرفہ بلکہ سہ فریقی‘ چہار فریقی اور کثیر فریقی بنیادوں پر افغانستان کے ساتھ جامع مذاکرات کیلئے بھی تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطح پر میکانزم موجود ہے‘ جس کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں افغان صدر اور پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیانات کو بنیاد بنا کر افغانستان میں قیامِ امن اور مصالحت کیلئے کوشش دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر اور اس پر پاکستان کی طرف سے سخت ردعمل کے نتیجے میں جو پیچیدہ اور خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے‘ اس سے باہر نکلنا ناصرف پاکستان بلکہ افغانستان اور امریکہ کے بھی مفاد میں ہے۔ بصورتِ دیگر افغانستان میں اب تک جو مالی اور جانی نقصان ہو چکا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ تباہی ہونے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ ٹرمپ کی پالیسی کا بنیادی مقصد افغانستان میں سٹیلمیٹ (Stalemate) کو ختم کرنا ہے۔ مذاکرات کے ذریعے یہ تبدیلی آئے تو بہتر ہے‘ بلکہ ٹرمپ نے خود اپنی تقریر میں کہا کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل امریکہ کی ترجیح ہو گی‘ لیکن اگر فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھنے میں ناکام رہے تو امریکہ فوجی کارروائی تیز کر دے گا۔ نئی امریکی پالیسی اور اس کے تحت تشکیل پانے والی حکمتِ عملی کے مطابق‘ افغانستان میں فوجی کاررروائی صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے گی‘ بلکہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے‘ کیونکہ امریکہ پاکستان پر اپنے ہاں دہشت گردوں کو پناہ دینے کا کھلم کھلا الزام عائد کر چکا ہے۔ پاکستان کے سخت ردعمل اور چین کی طرف سے وارننگ کے بعد امید ہے کہ امریکہ پاکستان کے اندر کسی قسم کی فوجی کارروائی سے احتراز کرے گا‘ لیکن اگر افغانستان میں جنگ تیز ہوتی ہے تو پاکستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منطور کردہ قراردادوں اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیہ میں جہاں امریکہ کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کے خلاف پاکستان کے بھرپور ردعمل کے عزم کا اعلان کیا گیا‘ وہاں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا بیان بھی پاکستان کے اسی موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ پاکستان کے دوست اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک بھی اس موقف کے پُرزور حمایتی ہیں۔ مثلاً چین‘ جس کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے گزشتہ جون میں کابل اور اسلام آباد میں افغان اور پاکستانی حکام سے بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ چین روس‘ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ایک چہار فریقی گروپ (QCC) کا رکن بھی ہے۔ اس گروپ کی کوششوں کے نتیجے میں جولائی 2015 میں‘ جرمنی میں پہلی مرتبہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ مذاکرات خاصے حوصلہ افزا ثابت ہوئے تھے‘ اور گروپ کے ارکان نے انہیں جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا‘ لیکن افغان طالبان کے سابق رہنما‘ ملا عمر کی پاکستان میں وفات سے پردہ اٹھ جانے کے بعد اسلام آباد اور کابل کے درمیان بدگمانی کی وجہ سے یہ گروپ فعال نہ رہا۔ اب اس گروپ کو دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کوششوں میں چین نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے تناظر میں چین نے پاکستان کی حمایت میں جو بیان جاری کیا تھا‘ اس میں بھی چین نے اپنی اسی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ الزام تراشیوں کی بجائے اگر پاکستان اور امریکہ مل کر افغان مسئلے کا حل تلاش کریں تو یہ بہتر ہو گا۔ کیا موجودہ فضا میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان افغانستان میں قیام امن کیلئے اشتراک کا امکان ہے؟ جی ہاں‘ بالکل ہے! پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے حال ہی میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے صدر ٹرمپ کی تقریر کی جو وضاحت کی‘ اور پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کی وسعت اور گہرائی کو جس طرح بیان کیا‘ اس کے پیشِ نظر اختلافات کے باوجود‘ پاکستان اور امریکہ‘ دونوں افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے فروغ کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات اتنے ہمہ گیر ہیں اور اتنے شعبوں پر محیط ہیں‘ کہ انہیں دو ملکوں کے درمیان افغانستان پر اختلافات کے پیمانے پر نہیں ماپا جا سکتا‘ اور ان تعلقات کی اہمیت کے پیش نظر دونوں میں سے کوئی بھی قطع تعلقی کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ خود امریکہ کے لئے بھی افغانستان کا سیاسی حل اولین ترجیح ہے۔ امریکی سفیر نے آرمی چیف سے ملاقات میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کی ساری ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی۔ نہ ہی امریکہ نے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے سیاسی اپروچ کو ترک کیا ہے‘ بلکہ امریکہ کی اب بھی شدید خواہش ہے کہ پاکستان افغانستان میں اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرے۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پاکستان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام نے جو قربانیاں دیں‘ امریکہ انہیں تسلیم کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ رچرڈ ٹلرسن بھی طالبان کو ہتھیار پھینک کر مذاکرات میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں۔
اس تناظر میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان کو جامع مذاکرات کی دعوت اور پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی جانب سے مثبت جواب افغان مسئلے کے پرامن اور مذاکرات کے ذریعے حل کی طرف پیش قدمی کا عندیہ ہیں۔ افغان صدر کی طرف سے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت اس لئے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے قبل افغان صدر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دے چکے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ نئی افغان پالیسی نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان میں جنگ کی شدت اور اس کا دائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ ہے، اور اس کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو پہنچنے کا احتمال ہے، اس لئے افغان صدر کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ اس میں خود پاکستان کا مفاد ہے۔ پاکستان کو افغانستان اور افغانستان کو پاکستان کی جس قدرضرورت ہے‘ اس کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ افغانستان کو اپنے ہاں امن کے قیام اور پاکستان کو نہ صرف بیرونی سکیورٹی بلکہ داخلی استحکام کے لئے بھی افغانستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ چونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کیلئے مختلف سطح پر پہلے سے میکانزم موجود ہیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر انہیں فعال بنایا جائے اور افغانستان کے مسائل کے پرامن حل کی راہ نکالی جائے۔