فاٹا یعنی وفاق کے زیرِ انتظام پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع قبائلی علاقوں میں سیاسی‘ انتظامی اور قانونی اصلاحات کا مطالبہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے کا ہے۔ انگریزوں نے اپنے نوآبادیاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر گزشتہ صدی کے آغاز میں افغانستان کی سرحد سے ملحقہ جن قبائلی علاقوں کو سابق صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) سے الگ کرکے علیحدہ انتظامی اور سیاسی لسانی گروپ قائم کیا تھا‘ اس کی الگ حیثیت کو ختم کرنے اور باقی صوبہ سرحد میں ضم کرنے کا مطالبہ سب سے پہلے خان عبدالغفار خان نے قائد اعظم کے سامنے رکھا تھا۔ اس وقت قائد اعظم دہلی میں تھے اور پاکستان کے قیام کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ خان عبدالغفار خان نے مطالبہ تسلیم ہونے کی صورت میں قائد اعظم کے ساتھ مکمل تعاون کی پیشکش کی تھی۔ قائد اعظم نے اس مطالبے سے اصولی طور پر اتفاق کیا‘ اور فرمایا تھا کہ علاقے کے لوگوں کی مرضی اور مفادات کے مطابق اگر فاٹا کو صوبہ سرحد میں ضم کر دیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ قیامِِ پاکستان کے بعد ملک میں آئینی اور سیاسی تبدیلیوں کے مختلف ادوار میں پنجاب‘ سندھ‘ شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں ریاستوں کے علیحدہ وجود کو ختم کیا گیا۔ بلوچستان کے قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرکے ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز)کو کالعدم قرار دے دیا گیا‘ ون یونٹ تشکیل پایا اور 1970ء میں بلوچستان کو علیحدہ صوبے کا درجہ دے دیا گیا‘ لیکن فاٹا کے سٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ سات قبائلی ایجنسیوں اور 6 قبائلی علاقوں پر مشتمل 27220 مربع کلومیٹر پر محیط اور 50 لاکھ سے اوپر آبادی والے اس خطے کو پاکستان کا حصہ تو شمار کیا جاتا ہے‘ لیکن اس میں آباد لوگوں کو ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے ہم وطن شہریوں کے برابر سیاسی‘ قانونی اور معاشرتی حقوق میسر نہیں‘ بلکہ 1901ء سے اب تک فاٹا میں نوآبادیاتی دور کا جابرانہ قانون یعنی ایف سی آر نافذ ہے۔
فاٹا اور اس کے عوام کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس میں اصلاحات کی حامی ہیں‘ لیکن جب اصلاحات کی کوشش کی جاتی ہے یا اصلاحات کے کسی پیکیج کا اعلان کیا جاتا ہے تو ہر سیاسی پارٹی اس کی مخالفت میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ فاٹا کی اصلاحات کے بارے میں تازہ ترین پیکیج یعنی سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی کی تجاویز بھی اس ناقابل فہم اور بلا جواز مخالفانہ روئیے کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ کمیٹی نومبر 2015ء میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے قائم کی تھی اور اس سال مارچ میں کمیٹی نے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کر دی تھیں۔ ان سفارشات میں کمیٹی نے فاٹا کو ایک علیحدہ صوبے کا درجہ دینے کی تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دے کر اسے صوبہ خیبر پختونخوا میں بتدریج اور مرحلہ وار ضم کرنے کی تجویز دی‘ اور اس کے لئے پانچ سال کا عبوری عرصہ تجویز کیا۔ اس عبوری عرصے کے دوران میں کمیٹی نے ان اہم اقدامات اور انتظامات کو مکمل کرنے کی سفارش کی‘ جو فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ان میں شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی واپسی و بحالی‘ اور سکیورٹی و امن و امان کے لئے ضروری انفراسٹرکچر کا قیام بھی شامل ہے۔ کمیٹی کی رائے میں یہ اقدامات اس لئے ضروری ہیں کہ تقریباً سوا صدی کے بعد فاٹا کی حیثیت میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ اگرچہ فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کی بھاری اکثریت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہے اور وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں‘ یعنی پختون ہیں‘ اس کے باوجود دونوں خطوں میں اقتصادی ترقی‘ صحت‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع میں جو تفاوت موجود ہے‘ اس کے پیشِ نظر ان دونوں کے انضمام میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات اور فاٹا کا صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام بھی سرد خانے میں پڑا پڑا باقی کوششوں کی طرح قصہ پارینہ بن جائے گا‘ کیونکہ ابھی اس پر عمل درآمد کا آغاز نہیں ہوا‘ اور ان کی مخالفت شروع بھی ہو گئی ہے۔ اس مخالفت میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) پیش پیش ہیں۔ یہ دونوں پختون سیاسی جماعتیں ہیں‘ اور پختون علاقوں میں رہنے والے لوگ ان کے ووٹ بینک کا اہم حصہ ہیں۔ پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ دونوں پارٹیاں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کر رہی ہیں؟ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے فاٹا میں رہنے والے لوگوں کی رائے معلوم کی جائے۔ حال ہی میں پشاور میں منعقدہ ایک آل پارٹیز کانفرنس نے بھی فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت کی‘ اور اسے ایک علیحدہ صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا‘ حالانکہ سرتاج عزیز کمیٹی نے ٹھوس معروضی حالات کی بنیاد پر مضبوط دلائل کے ذریعے فاٹا کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کی تجویز کو ناقابل عمل اور اسے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کی سفارش کی تھی اور ثابت کیا تھا کہ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے‘ کیونکہ فاٹا کی تمام ایجنسیوں کا صوبہ پختون خوا کے ساتھ قریبی رابطہ ہے‘ جبکہ ان ایجنسیوں کا آپس میں اتنا رابطہ نہیں‘ کیونکہ ان کی سرحدیں آپس میں ملحقہ نہیں ہیں۔ اس لئے نہ صرف ثقافتی اور سیاسی بلکہ معاشی طور پر بھی فاٹا صوبہ خیبر پختون خوا کا قدرتی حصہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دو سیاسی پارٹیوں کے علاوہ باقی تمام سیاسی پارٹیاں‘ فاٹا کو صوبہ پختون خوا کا حصہ بنانے کے حق میں ہیں۔ اس کے باوجود اب تک فاٹا کے عوام ان بنیادی انسانی‘ سیاسی اور معاشرتی حقوق سے کیوں محروم ہیں‘ جو پاکستان کے دوسرے حصوں میں رہنے والے لوگوں کو حاصل ہیں؟
اس اہم سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں قیامِ پاکستان کے بعد فاٹا میں اصلاحات کے نفاذ کی کوششوں کی تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا۔ فاٹا اصلاحات کی پہلی سنجیدہ کوشش ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ہوئی۔ اس کے مطابق بھٹو فاٹا کو سابقہ صوبہ سرحد کا حصہ بنا کر 1977ء میں وہاں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر صوبائی انتخابات کروانا چاہتے تھے‘ لیکن ضیاالحق کی آمریت نے اس پر عمل درآمد نہ ہونے دیا۔ 1996ء میں فاٹا کے عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا حق تو مل گیا‘ لیکن اس کے سٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ مشرف کے دور میں زیادہ زور بلدیاتی اداروں کے قیام پر تھا‘ لیکن فاٹا میں یہ کوشش ناکام ہو گئی‘ کیونکہ مشرف حکومت فاٹا کی حیثیت میں تبدیلی‘ اور ایف سی آر کی منسوخی پر راضی نہیں تھی۔ 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین میں بے شمار اور بنیادی تبدیلیاں کی گئیں‘ لیکن فاٹا کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال اور افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کی وجہ سے فاٹا سے مخصوص سکیورٹی مفادات کسی قسم کی بنیادی تبدیلی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے تھے۔ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد روکنے کی سب سے بڑی وجہ سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مطابق پاناما لیکس سے پہلے ہونے والا سیاسی بحران تھا‘ کیونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو اپنے دو اتحادی جماعتوں یعنی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس طرح فاٹا میں اصلاحات کا عمل دراصل پاکستان میں ایک کے بعد ایک آنے والے سیاسی بحران کا شکار ہوتا رہا۔ سیاسی پارٹیوں کی مصلحت کوشی اور ابن الوقتی پر مبنی پالیسی بھی ان اصلاحات کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں فاٹا کو ایک ایسا سکیورٹی زون بنا دیا گیا ہے‘ جہاں نہ تو کوئی میڈیا ٹیم اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹی کا کوئی وفد داخل ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں فاٹا اصلاحات کا کام مستقل معرضِ التوا میں پڑا رہے گا۔ حکومت نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو فاٹا تک توسیع دینے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ وہ بھی ناکافی ہے۔ اس کے پیچھے بھی فاٹا کے عوام کی خدمت کی بجائے سیاسی مفادات کے حصول کا مقصد زیادہ کارفرما نظر آتا ہے۔