17ستمبر کو لاہور کے حلقہ قومی اسمبلی این اے 120میں ضمنی انتخاب کو بہت سے مبصرین نے آئندہ یعنی 2018کے پارلیمانی انتخابات کیلئے سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہونے والے معرکے کی فل ڈریس ریہرسل کا نام دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ضمنی انتخاب ایسے موقعہ پر منعقد ہوا ہے‘ جب موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے اور آئندہ قومی انتخابات میں دس ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ دوسرے اس میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایسی حکمت عملی اور نعرے استعمال کئے ہیں‘ جو 2018کے انتخابات میں بھی استعمال ہونے کی امید ہے۔ تیسرے ضمنی انتخاب کا نتیجہ بڑا دلچسپ اور معنی خیز ہے اور دونوں سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے جو دعوے کئے تھے‘ یہ نتیجہ ان کے برعکس ہے۔ پارٹی چیئرمین عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس ضمنی انتخاب میں حلقہ این اے 120کے ووٹر ان کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو کامیاب کروا کر ثابت کریں گے کہ نواز شریف کی نااہلیت کا فیصلہ صحیح ہے۔ لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست ہو گئی اور بیگم کلثو م نواز کامیاب ہو گئیں۔ تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ حلقے کے عوام کی اکثریت فیصلے کو غلط سمجھتی ہے؟ انتخاب سے پہلے حریف پارٹیوں کے امیدواروں کا دعویٰ تھا کہ وہ بڑے مارجن سے جیتیں گے۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار بیگم کلثوم نواز تقریباً 14000 ووٹوں کی لیڈ سے جیتی ہیں۔ جو اگرچہ واضح برتری ہے تاہم 2013کے اسی حلقہ کے انتخاب میں میاں محمد نوازشریف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں 40000ووٹوں کی برتری حاصل کی تھی۔ الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کے ن کے ووٹ بینک میں 11فیصد کمی اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں 3فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کیا یہ رجحان 2018میں بھی نظر آئے گا؟ اس کے علاوہ لاہور کے اس ضمنی انتخاب میں ایک نئی مذہبی جماعت ''ملی مسلم لیگ ‘‘ نے بھی حصہ لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جماعت نے اپنی پہلی کوشش میں ہی نمایاں پوزیشن حاصل کرکے سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا ہے۔ اگرچہ حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 6000کے قریب ہے اور باقی 42امیدواروں کی طرح اس پارٹی کے امیدوار کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی ہے تاہم پارٹی کے امیدوار اور رہنما اپنی کارکردگی پر بڑے خوش ہیں اور انہیں امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس امید کے تحت اس پارٹی نے اگلے ماہ پشاور میں ایک ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ آئندہ عام انتخابات تک ملی مسلم لیگ نہ صرف انتخابی سیاست میں پہلے سے زیادہ تجربے کی حامل بن جائے گی‘ بلکہ دیگر ہم خیال سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر مذہبی وسیاسی جماعتوں کے ایک وسیع تر پلیٹ فارم سے 2018کے پارلیمانی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کی بھی پوزیشن میں ہو گی۔ کچھ حلقوں کی طرف سے سابق متحدہ مجلس عمل کو ایک دفعہ پھر فعال بنانے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں اور مذہبی جماعتوں کی قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہونے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں‘ ان کے تحت اور این اے 120میں اس تجربے کے حوصلہ افزا نتائج کی روشنی میں یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ 2018کے عام انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھرپور حصہ لیں گی۔ اگرچہ این اے 120کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی ہاری ہے لیکن اس ہار میں بھی اسے اپنی جیت نظر آتی ہے کیونکہ اپنے سیاسی گڑھ میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے حوصلہ پا کر آئندہ انتخابات میں عمران خان اپنے مد مقابل پارٹی کے خلاف زیادہ جارحانہ انداز اپنائیں گے۔ این اے 120کے نتائج کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کو یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے قریب ہے۔ وہ اپنی منزل کو قریب دیکھ کر آخری جست لگانے کی کوشش کریں گے۔ اس لئے آئندہ انتخابات میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ اس میں عمران خان کی طرف سے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کو ایک کرپٹ‘ بد دیانت اور جھوٹے رہنما کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ بعض معاملات میں قوم دوحصوں میں بٹ چکی ہے۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے کہنے پر عوام نواز شریف کو کرپٹ اور بد دیانت نہیں مان لیں گے۔ ورنہ این اے 120کے ضمنی انتخاب میں نتیجہ الٹ ہوتا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کرپشن سیاسی نعرہ ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے لگایا جاتا ہے۔ جہاں تک انتخابی سیاست کا تعلق ہے ‘ یہ ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی عمل ہے اور اس میں بیک وقت کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ابھی تک لاہور میں ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے جذبہ اور جوش و خروش کے نتیجے میں پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو سکتا ہے‘ لیکن موجودہ حالات میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ عمران خان پنجاب سے قومی اسمبلی کی اتنی نشستیں جیت جائیں گے کہ وہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ سکیں۔ البتہ اگر مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے اور اس میں موجود موقعہ پرست سیاست دان‘ پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی کا رخ کریں تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن ابھی تک مسلم لیگ ن متحد ہے۔ پارٹی کے اندر چند امور پر اختلافات پر کھسر پھسر ہو سکتی ہے‘ لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی بڑی تعداد 2018کے انتخابات سے پہلے اپنی پارٹی چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ جا کھڑے ہوں گے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ نااہلی اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بہت سے ارکان اسمبلی نواز شریف کا ساتھ چھوڑ جائیں گے‘ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ پارٹی نہ صرف متحد رہی بلکہ تمام ارکان اسمبلی نے نواز شریف کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔پنجاب اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ منظور ہونے والی قرارداد میں نواز شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ نااہلی اور نیب کے مقدمات کے باوجود پارٹی نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اگر اس بارے میں کسی کو کوئی شک یا غلط فہمی تھی تو حلقہ این اے 120کے انتخابی نتائج کے بعد دور ہو جانی چاہئے۔ این اے 120میں مسلم لیگ ن کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کی موثر مہم نے مسلم لیگ ن میں کسی ممکنہ توڑ پھوڑ کا امکان فی الحال ختم کر دیا ہے۔ لیکن نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنس اور احتساب عدالت میں مقدمات نہ صرف شریف خاندان بلکہ مسلم لیگ ن کے لئے ایک کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔ اگر اس کڑی آزمائش کے دوران میں پارٹی کا رینک اینڈ فائنل نہ صرف یکجا رہتا ہے بلکہ میاں محمد نواز شریف پوری یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو عمران خان کا ٹاسک پورا ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا۔ اگرچہ این اے 120کے معرکے کو 2018کے انتخابات کا پرتو قرار دیا جا رہا ہے تاہم انتخابات تک سات آٹھ ماہ کا عرصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ کیونکہ اس عرصہ کے دوران میں ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں جن کا براہ راست اثر نہ صرف نواز شریف بلکہ خود انتخابات کے مستقبل پر پڑ سکتا ہے۔ ان میں نیب ریفرنس اور احتساب عدالت کے بارے میں نواز شریف کا فیصلہ ‘ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل اور سب سے بڑھ کر افغانستان کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ممکنہ اقدامات بھی شامل ہیں۔