پاکستان میں گزشتہ چار برس سے انتخابی دھاندلیوں اور پھر پانامہ کیس کے نام پر اقتدار کی جو رسہ کشی جاری ہے‘ اس کے اصل خدوخال اب مزید نمایاں ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ ایک عرصے سے یہ افواہ گرم تھی کہ حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ ن پر مائنس ون فارمولا لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے تحت نواز شریف کی جگہ کسی ایسے لیگی رہنما کے ہاتھ میں پارٹی اور حکومت کی قیادت دینا مطلوب ہے‘ جو مقتدر طاقتوں کے لئے زیادہ قابل قبول ہو۔ اس ضمن میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اورسابق وزیر داخلہ اور پارٹی کے سینئر رہنما چودھری نثار علی خان کا نام لیا جا رہا ہے۔ پہلے یہ ایجنڈا نیوز لیک یا کسی گمنام ذرائع کے حوالے سے کسی ٹی وی فوٹیج یا اخباری بیان کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا‘ اب خود نون لیگ کے اپنے حلقوں‘ جن میں منتخب نمائندے بھی شامل ہیں‘ کی طرف سے بھی برملا مطالبے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کو متحد رکھنے اور موجودہ بحران سے ملک کو نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی جگہ پارٹی کی قیادت سنبھال لیں۔ جناب پیرزادہ کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے اور صوبے کے اس حصے سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی نے اپنے دیگر ساتھیوں سے مل کر لاہور میں حال ہی میں ایک اجلاس میں شرکت کی‘ اور یہ طے کیا کہ نواز شریف کی رہبری میں شہباز شریف پارٹی کی قیادت سنبھال کر 2018ء کے انتخابات میں حصہ لیں۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے موجودہ اور سابق ارکانِ اسمبلی کی تعداد 40 کے قریب بتائی جاتی ہے اور ان میں اکثریت ان ارکان کی ہے‘ جو 2013ء کے انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ ق میں شامل تھے۔ ان کی طرف سے نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کے حق میں آواز اٹھانے کی بنیاد یہ بتائی جاتی ہے کہ نواز شریف کو احتساب عدالت میں متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔ اگر ان مقدمات میں نواز شریف کو سزا ہو جاتی ہے‘ تو یہ نہ صرف نواز شریف اور اس کے خاندان بلکہ پوری پارٹی کے لئے مشکلات کا باعث ہو گی۔ اس شرمندگی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پارٹی کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ہو تاکہ پوری تیاری اور اعتماد کے ساتھ 2018ء کے انتخابات میں حصہ لیا جا سکے۔ لیکن نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو آگے لانے کی کوششیں تو پانامہ کیس سے بہت پہلے شروع کر دی گئی تھیں۔ اس لئے میرے خیال میں نون لیگ کی قیادت میں تبدیلی کی ضرورت کا موجودہ بحران سے کوئی تعلق نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کوششوں کا آغاز 1999ء کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا اور اس کی واحد وجہ پاکستان کی اندرونی سیاست اور خارجہ تعلقات کے بارے میں نواز شریف کی وژنری اپروچ ہے‘ جو کچھ حلقوں کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔ اگرچہ پاکستان کے حکمران طبقے کو ماضی سے سبق سیکھنے کی عادت نہیں‘ تاہم انہیں یاد دلانے کے لئے ماضی میں اس قسم کی کوششوں کے حشر کا ایک مختصر جائزہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
ایوب خان پاکستان کے تمام مسائل اور مشکلات کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہراتا تھا۔ اسی لئے اس نے سیاست دانوں کا بنایا ہوا آئین (1956ئ) منسوخ کرکے پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تھا‘ سیاسی پارٹیاں توڑ دی تھیں‘ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی اور سیاست دانوں کو یا تو جیل میں ڈال دیا یا انہیں احتساب کی عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ اس نے ملک میں جو نظام‘ یعنی بنیادی جمہوریتوں کا نظام‘ متعارف کرایا اس کی بنیاد غیر سیاسی تھی۔ اس کے اپنے بنائے ہوئے آئین (1962ئ) کے تحت صدر اور اسمبلی کے پہلے انتخابات ''غیر سیاسی‘‘ تھے اور ان میں سیاسی پارٹیوں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی‘ لیکن آخرکار ایوب کو نہ صرف سیاسی پارٹیوں کی اہمیت تسلیم کرنا پڑی‘ بلکہ وہ خود ایک سیاسی پارٹی (کنونشن مسلم لیگ)کے صدر بھی بنے۔ ایوب خان کی تقلید کرتے ہوئے ضیاالحق نے بھی قومی سیاست سے سیاسی پارٹیوں کو دور رکھنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنے دور کے پہلے پارلیمانی انتخابات (1985ئ) غیر سیاسی بنیادوں پر کروائے اور دوسرے انتخابات (1988ئ) بھی غیر سیاسی بنیادوں پر منعقد کروانا چاہتے تھے‘ بلکہ مئی 1988ء میں وزیر اعظم جونیجو کی حکومت برطرف کرنے اور انتخابات کو ملتوی کرنے کے موقعہ پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ زندہ رہے تو آئندہ تیس برس تک پاکستان میں غیر سیاسی بنیادوں پر ہی انتخابات کروائیں گے۔
پولیٹیکل انجینئرنگ کا یہ سلسلہ جنرل مشرف کے دور میں بھی جاری رہا۔ اس نے دو بڑی سیاسی پارٹیوں (پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن) کی قیادت کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے علاوہ ضیاالحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 1973ء کے آئین کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے لئے سترہویں آئینی ترمیم متعارف کرائی۔ لیکن تاریخ کے دھارے کے سامنے بند باندھنے کی یہ تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور 2010ء میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اٹھارہویں ترمیم منظور کرکے 1973ء کے آئین کو ایک دفعہ پھر اس کی اصلی صورت میں بحال کر دیا۔ پاکستان کی گزشتہ اور حالیہ تاریخ‘ دونوں اس امر کی گواہ ہیں کہ ملک میں غیر سیاسی‘ غیر نمائندہ اور غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں پولیٹیکل انجینئرنگ کے تجربات‘ جن میں مائنس ون فارمولا بھی شامل ہے‘ کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ حالیہ تاریخ میں اس فارمولے کو سب سے زیادہ 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے تحت آصف علی زرداری کو پارٹی کی قیادت اور ملک کی صدارت سے الگ کرنا مقصود تھا۔ مگر اس میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور زرداری صاحب نے اپنا پانچ سالہ دور مکمل کر لیا۔ اسی طرح کی ایک کوشش سندھ کی ایک پارٹی کے حوالے سے بھی کی گئی۔ جو اردو بولنے والے الطاف حسین کو اپنا لیڈر نہیں مانتے‘ وہ پاک سرزمین پارٹی میں چلے گئے ہیں‘ اور پاک سرزمین پارٹی کو کراچی میں اردو بولنے والوں کی کتنی حمایت حاصل ہے‘ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پارٹی نے شہری علاقوں میں کسی ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کی ہمت نہیں کی‘ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے مقابلے میں اسے اردو بولنے والے لوگوں کے بہت کم ووٹ ملیں گے۔ فاروق ستار لاکھ کہیں کہ لندن سے ان کا کوئی تعلق نہیں‘ مگر ان کی اور الطاف حسین کی پالیٹکس میں کوئی فرق نہیں۔
یہی صورتحال پاکستان مسلم لیگ ن کی ہے۔ اس کے کارکنان اور رہنمائوں کو معلوم ہے کہ نواز شریف کو اگر اس سے الگ کیا گیا تو پارٹی کا وجود ختم ہو جائے گا۔ نواز شریف کو ڈس اون کرکے نئی سیاسی پارٹی تو بنائی جا سکتی ہے ‘ لیکن پارٹی میں رہتے ہوئے نواز شریف کی قیادت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف اور ان کی فیملی کو اگر نیب کیسز میں سزا ہو جائے اور انہیں جیل جانا پڑے‘ تب بھی مسلم لیگ ن کا کوئی فرد یا گروپ انہیں عضو معطل سمجھ کر مسترد نہیں کر سکتا۔ اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا کر کسی اور لیڈر کو ان کی جگہ نہیں بٹھایا جا سکتا۔ البتہ آئندہ انتخابات میں ایک موثر مہم چلانے کے لئے کسی کو بھی نامزد کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے لئے شہباز شریف موزوں ترین ہیں‘ مگر پاپولر ووٹ کی ضمانت کے لئے سورس نواز شریف ہی ہیں‘ خواہ وہ جیل ہی میں کیوں نہ ہوں۔