"DRA" (space) message & send to 7575

کشمیر پر مذاکرات

100 کے قریب کشمیری نوجوانوں کی شہادت اور مزید سینکڑوں کو پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے شدید زخمی کرنے کے بعد بھارت کی مودی سرکار کو آخرکار معقولیت اور حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ ایک اطلاع کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت نے ملک کی انٹیلی جنس بیورو کے ایک سابق سربراہ دنیشور شرما کو جموں و کشمیر میں عوام کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کے لئے مقرر کیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ شرما جی جن گروپوں اور تنظیموں سے مذاکرات کریں گے‘ ان میں منتخب نمائندوں اور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ دیگر گروپ بھی شامل ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان میں حریت پسند رہنما بھی شامل ہوں گے تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت کے زور پر موددی سرکار نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی موجودہ لہر کو کچلنے کی جو کوشش کی تھی‘ وہ بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور نریندر مودی کو کشمیریوں کے جذبۂ حریت اور عالمی برادری کے سامنے جھکنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری عوام کو یہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے بے شمار قربانیاں دینا پڑیں‘ تاہم بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ کشمیری عوام کی بہت بڑی فتح ہے۔ ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی تو کئی بار مودی حکومت کو مذاکرات کا راستہ اپنانے کا مشورہ دے چکی ہیں‘ لیکن بی جے پی کی حکومت اور بھارت کے انتہا پسند عناصر کو زعم تھا کہ فائرنگ‘ لاٹھی چارج اور جیل میں ڈالنے سے آزادی کے متوالوں کو کچلا جا سکتا ہے‘ لیکن وقت نے مودی سرکار کو غلط اور حریت پسندوں کو صحیح ثابت کر دیا ہے؛ تاہم اس فیصلے کے اعلان کے بعد کشمیری مجاہدین کو چوکس رہنا پڑے گا‘ کیونکہ بھارت نے مذاکرات پر آمادگی کے ساتھ اس کے مقاصد کی طرف واضح اشارہ نہیں کیا‘ صرف یہ کہا گیا کہ ان مذاکرات کے ذریعے کشمیریوں کا موقف اور ان کے جذبات و احساسات معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کشمیر کے نوجوانوں‘ بوڑھوں‘ بچوں‘ مردوں اور عورتوں‘ سب کو مل کر ''آزادی‘‘ کا نعرہ اتنی بلند آواز میں لگانا چاہئے کہ اس کی گونج نئی دہلی میں بھی سنی جائے۔ بھارت کے حکمرانوں پر یہ حقیقت اب تک واضح ہو جانی چاہئے کہ کشمیری عوام اور کچھ نہیں بس بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ مذاکرات کی اس کوشش میں پیش رفت کے لئے ضروری ہے کہ بھارت ان کے مقاصد واضح کرے اور کشمیری عوام پر ظلم ڈھانے کے لئے اس نے وادی میں جو سات لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے‘ اسے پیچھے ہٹائے اور کشمیر کے دیرینہ مسئلے کو ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی اور احساسات کی روشنی میں حل کرے۔ مذاکرات کے عمل کے لئے پہلا قدم تو اٹھا لیا گیا ہے‘ لیکن دوسری طرف یعنی کشمیری عوام کی طرف سے مثبت ردعمل کی اس وقت تک توقع نہیں کی جا سکتی جب تک اس میں پاکستان کو شامل نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس اقدام کو خوش آئند کہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس عمل میں پاکستان کو بھی شامل کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک پاکستان کو ان مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاتا‘ ان کے آگے بڑھنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ عمر عبداللہ کے علاوہ ریاست کے اندر دیگر سیاسی حلقوں کا بھی یہی موقف ہے کہ جب تک مذاکرات کو سہ فریقی نہیں بنایا جاتا‘ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کو ابھی تک یہ حقیقت سمجھ نہیں آئی حالانکہ مسئلہ کشمیر کی گزشتہ ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو اس مسئلے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اب تک بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ایک دو طرفہ تنازع قرار دے کر کشمیر ی عوام کو اس سے الگ رکھا جائے اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات میں اس کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر پاکستان کو اس سے دور رکھا جائے؛ تاہم بھارت اس کوشش میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا کشمیر پر بھارت کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی۔ 1948ء میں اقوام متحدہ اپنی قراردادوں میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر میں ایک فریق کی حیثیت سے تسلیم کر چکی ہے۔ خود کشمیری عوام بھی بھارت کے اس موقف کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی طرف کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش اس وقت تک بے سود ہے‘ جب تک کہ اس میں پاکستان کو بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف پاکستان کی طرف سے بھی اس بات کا پیہم مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات میں جب تک کشمیریوں کو شریک نہیںکیا جاتا‘ یہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے‘ اور اس کا ثبوت 2004ء میں شروع کئے گئے پاک بھارت امن مذاکرات میں پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک ہے۔ یہ مذاکرات پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اور بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ایما پر شروع ہوئے تھے۔ ان کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان عرصے سے چلے آ رہے باہمی تنازعات‘ جن میں مسئلہ جموں و کشمیر بھی شامل ہے‘ کے حل کے لئے دو طرفہ مذاکرات یعنی کمپوزٹ ڈائیلاگ کا اہتمام تھا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ 2008ء تک بلا تعطل کے جاری رہا اور اس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان بعض شعبوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی؛ تاہم کشمیر پر فریقین کے درمیان اختلافات کو کم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ کشمیر پر مذاکرات میں کشمیریوں کو شریک کرنے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا۔ ریاست جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کی رہنمائی کرنے والی کشمیریوں کی تنظیم حریت کانفرنس نے نئی دہلی کو اس پر قائل کرنے کی بڑی کوشش کی کہ پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے کا کشمیریوں کو بھی حصہ بنایا جائے۔ پاکستان اس پر رضا مندی ظاہر کر چکا ہے اور بین الاقوامی طاقتیں‘ جن کی پس پردہ کوششوں سے امن مذاکرات کا یہ سلسلہ شروع ہوا تھا‘ بھی اس تجویز کی حامی ہیں۔ بھارت کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ تسلیم کروانے پر تلا ہوا ہے‘ اور اس کا یہی موقف مسئلہ کشمیر کے ایک تسلی بخش اور مستقل حل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب بھی بھارت اسی فریم ورک میں کشمیر میں درپیش مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو بائی پاس کرکے وہ تحریک آزادیٔ کشمیر کے رہنمائوں کے ساتھ معاملات طے کرے‘ مگر اس کی یہ کوشش جس طرح پہلے ناکام ہوتی رہی ہے‘ اب بھی ناکام ہو گی۔ اس لئے کہ پاکستان اس مسئلے کا ایک قدرتی فریق ہے اور بھارت لاکھ کوشش کے باوجود پاکستان کو الگ تھلگ کرکے ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو اپنی مرضی کے مطابق حل نہیں کر سکتا۔ ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے بھارت دو حقیقتوں سے نظریں چرا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اس مسئلے کو طاقت کے زور پر حل نہیں کر سکتا۔ گزشتہ 70 برس میں مختلف مواقع پر اس نے کشمیریوں کی جدوجہد کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا‘ جن میں طاقت کا بے دریغ استعمال بھی شامل ہے‘ لیکن اسے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی نہیں ملی۔ اسی طرح بھارت نے اس مسئلے سے پاکستان کو الگ کرنے کی بھی سرتوڑ کوشش کی ہے۔ اس نے کشمیر میں ایک الگ حکومت تشکیل دی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرکے ریاستی انتخابات کروائے۔ جب ان کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا تو کشمیریوں کے ساتھ براہ راست مزاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تمام حربے آزمانے کے باوجود مسئلہ کشمیر جوں کا توں قائم ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو اس سے الگ رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کی تازہ کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ لیکن جس طرح ماضی میں اس قسم کی کوشش ناکام ہوتی رہی ہیں‘ موجودہ کوشش بھی ناکام ثابت ہو گی۔ اس لئے بھارت کی حکومت کے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ایسے حل کے لئے‘ جو تینوں فریقوں یعنی پاکستان‘ بھارت اور کشمیری عوام کو مطمئن کر سکے‘ سہ فریقی مذاکرات کے انعقاد پر متفق ہو جائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں