''16 نومبر کو نئی حلقہ بندیوں کے لئے آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔ اصولی طور پر اُسے سینیٹ میں‘ اُس دن ایک سیکنڈ میں منظور ہو جانا چاہیے تھا‘‘ یہ ہیں وہ الفاظ جو سابق وزیراعظم اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف نے 22 نومبر کو اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ادا کیے۔ اس مقصد کے لیے کہ آئندہ انتخابات وقت پر ہوں‘ حکومت نے نئی مردُم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر انتخابی حلقہ بندیوں کا ازسر نو تعین کرنے کے لئے الیکشن بل 2017ء میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حزبِ اختلاف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بلایا۔ ان پارٹیوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے ''مشترکہ مفادات کونسل‘‘ (CCI) کا بھی اجلاس بلایا گیا، جہاں حزب اختلاف کے تحفظات دور کئے گئے۔ خصوصاً پیپلز پارٹی جو کہ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی ہے، کا یہ مطالبہ تسلیم کیا گیا کہ نئی مردُم شماری کے اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کے لئے ایک فیصد بلاکس کا کسی تیسرے فریق سے آڈٹ کروایا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے ان سب کاوشوں کا مقصد ترمیمی بل کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کروانا تھا اور جب یہ مقصد حاصل ہوا تو ہر طرف سے قومی اسمبلی اور پارلیمانی پارٹیوں کی تعریف کی گئی اور یہ یقین ظاہر کیا جانے لگا کہ اگلے یعنی 2018ء کے انتخابات کے بروقت انعقاد کا راستہ صاف ہو گیا ہے لیکن تقریباً 10 دن گزر جانے کے باوجود بل سینیٹ سے منظور نہیں ہو سکا اور جب تک یہ بل سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں ہوتا، اسے قانون کی شکل دینے‘ صدر مملکت کے دستخطوں کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی طرف سے اسی بل کو سینیٹ سے منظور کروانے کے لئے متعدد کوششیں کی گئی ہیں لیکن ہر بار مطلوبہ تعداد میں ارکان سینیٹ کے حاضر نہ ہونے کی وجہ سے ان کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کے برعکس سینیٹ میں اکثریت سے محروم ہے۔ اس لیے کسی بھی بل کی منظوری کے لیے حزب اختلاف کی رضا مندی خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی‘ جس کے پاس سینیٹ کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں، کی حمایت کی محتاج ہے۔ مگر پیپلز پارٹی نے حکمران جماعت سے تعاون کا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ سینیٹ میں عام کارروائی ہو تو اس کے ارکان اجلاس میں موجود ہوتے ہیں لیکن جونہی نئی حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے، اس کے ممبران کھسک جاتے ہیں۔ کچھ ممبران صرف حاضری لگانے کے لیے ایوان بالا آتے ہیں اور حاضری لگا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ 22 نومبر کو جب یہ بل چوتھی دفعہ ایوان بالا میں بحث کے لیے پیش کیا گیا تو سینیٹ کے کل 104 ارکان میں سے صرف 53 حاضر تھے جبکہ اس کی منظوری کے لیے کم از کم 69 ممبران کی حمایت ضروری ہے۔
سینیٹ سے بل منظور نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہوتا جا رہا ہے اور اگر اسے اگلے چند دنوں میں منظور نہ کروایا گیا تو الیکشن 2018ء کا بروقت انعقاد ناممکن ہو جائے گا کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے تعین کے لیے وقت باقی نہیں رہے گا۔ آئین کی رو سے نئی مردم شماری کے بعد پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر اگلے انتخابات منعقد نہیں کرائے جا سکتے۔ اس طرح ملک تیزی سے ایک ایسے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا آئین میں کوئی حل موجود نہیں۔ اس کے لیے حکومت کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جو یا تو موجودہ اسمبلیوں کی‘ جون کے پہلے ہفتے میں ختم ہونے والی مدت میں توسیع کر سکتی ہے یا اس آئینی مدت کے اختتام پر قائم ہونے والی عبوری حکومت کی تین ماہ کی مدت میں توسیع کر سکتی ہے تاکہ نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کا اعلان ہو جائے اور ان کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کو مکمل کر کے اگلے انتخابات کا انعقاد کیا جا سکے۔ دونوں صورتوں میں نئے پارلیمانی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر لازم ہے جو کہ جمہوری نظام کے تسلسل اور اس کے استحکام کے لئے نیک شگون نہیں۔ اس تاخیر سے کسی سیاسی پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بلکہ قومی اسمبلی میں اس بل کو اتفاق رائے سے منظور کر کے سیاسی پارٹیوں نے جو نیک نامی کمائی تھی اور عوام کی ستائش حاصل کی تھی‘ وہ ہوا میں اُڑ جائے گی۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے کیا خوب کہا کہ سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کو یہ تاریخی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کیونکہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے بروقت انتخابات اور اس کے نتیجے میں اقتدار کی منتقلی نہ صرف ملک اور قوم بلکہ خود سیاسی قوتوں کے مفاد میں ہے۔ تاہم یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پیپلز پارٹی‘ جس نے قومی اسمبلی میں بل کی منظوری میں حکومت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیا تھا، اب سینیٹ میں عدم تعاون کی پالیسی کیوں اپنائے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ پارٹی چیئرمین اور شریک چیئرمین یعنی بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے حکومت کے نمائندوں سے بات کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں اپنے اُس بل کی شکست کا رنج ہے جس کے تحت نوازشریف کو پاکستان مسلم لیگ کی صدارت کے لیے نااہل قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس بل کی مخالفت میں حکمران جماعت کے ارکان قومی اسمبلی نے غیر معمولی تعداد میں حاضر ہو کر نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل کی حمایت قومی اسمبلی میں نواز شریف کے خلاف بل کی منظوری سے مشروط کی تھی۔ اگر یہ حقیقت ہے تو احمقانہ سیاست کی اس سے بڑی کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی۔ بھلا ایک سیاسی پارٹی کے ارکان اسمبلی اپنے ہی رہنما کو قیادت سے محروم کرنے پر کیسے آمادہ ہو سکتے ہیں؟ بعض حلقوں کے مطابق پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد نے نواز شریف کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے اور وہ ایوان سے غیر حاضر ہو کر پیپلز پارٹی کے بل کی منظوری کی راہ ہموار کر دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں اور جن لوگوں نے نوازشریف کے خلاف مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے بغاوت کی پیش گوئی کی تھی، انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ ان میں پیپلز پارٹی کی قیادت بھی شامل ہے اور اس ردّعمل میں ان کی طرف سے سینیٹ میں حلقہ بندیوں سے متعلقہ بل پر حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
لیکن ایسا کرتے وقت پیپلز پارٹی کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ نواز شریف یا مسلم لیگ نون سے بدلہ نہیں لے رہی بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام سے بدلہ لے رہی ہے جو بروقت انتخابات کے خواہاں ہیں۔ حلقہ بندیوں کے بل کی جلد منظوری نہ ہونے کی وجہ سے صرف انتخابات کے مؤخر ہونے کا خدشہ ہی نہیں بلکہ ایسی غیر معمولی سیاسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری پیپلز پارٹی پر عائد ہو گی۔ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی سے ایسی لغزشیں سرزد ہوئی ہیں جن کا بعد میں اسے خمیازہ بھگتنا پڑا اور اس کا سیاسی گراف اتنا نیچے گر چکا ہے کہ اس کے اُوپر جانے کے امکانات خصوصاً پنجاب میں تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ ان میں 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان رسہ کشی میں اول الذکر کا ساتھ دینے کا فیصلہ تھا۔ پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت نے ایک منتخب وزیراعظم کے مقابلے میں آمریت کے قریبی ساتھی اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کا ساتھ دے کر اپنی جمہوری اور عوام دوست ساکھ کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ اُس فیصلے کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے آج تک پائوں نہیں جم سکے بلکہ اب یہ روز بروز اپنی حمایت کھوئے چلی جا رہی ہے۔ این 120 لاہور کے حالیہ ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد اس کا ایک ثبوت ہے۔ لیکن ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر جمہوری عمل کے تسلسل میں خلل ڈال کر اپنی جمہوری ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جہاں تک نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) سے پیپلز پارٹی کی شکایات کا تعلق ہے تو اُن میں سے بہت سی صحیح بھی ہوں گی لیکن یہ وقت پرانے حساب کتاب چکانے کا نہیں۔ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی سے توقع رکھتے ہیں کہ جس سپرٹ کے ساتھ اس نے قومی اسمبلی میں حلقہ بندیوں سے متعلقہ بل کی حمایت کی تھی‘ اُسی جذبہ کے تحت وہ سینیٹ میں بھی مثبت رویہ اختیار کرے گی۔