سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار کا حکم کہ پوٹھوہار کے علاقہ کلرکہار میں واقع ہندوئوں کے کٹاس مندر کی مقدس جھیل کو پانی کی سپلائی فوری بحال کی جائے‘ ہر لحاظ سے قابل ستائش اور بھرپور ستائش کا مستحق ہے۔ چیف جسٹس نے یہ حکم مشہور تاریخی مندر کی زبوں حالی کے بارے میں میڈیا رپورٹس کی روشنی میں ازخود (suo moto) نوٹس کی بنیاد پر صادر کیا۔ اطلاعات کے مطابق مندر کے قریبی علاقے میں سیمنٹ فیکٹریوں کی تنصیب اور بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے مندر کی جھیل میں پانی لانے والے چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں اور مندر کی جھیل میں پانی کی سطح بہت نیچے گر چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مندر کے قریب واقع نہ صرف سیمنٹ فیکٹریاں زیر زمین پانی کی بہت بڑی مقدار کو اپنے استعمال میں لا رہی ہیں‘ بلکہ اردگرد کی آبادی کے لئے مناسب واٹر سپلائی سکیم نہ ہونے کی وجہ سے بھی کٹاس والا اور چوہا سیدن شاہ میں واقع ہر گھر زمین کی گہرائی سے موٹر کے ذریعے پانی نکال کر استعمال کر رہا ہے۔ اس سے جھیل میں پانی کی سپلائی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ انہیں اس مسئلے کا حل مطلوب ہے۔ انہوں نے حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جھیل کو ایک ہفتے کے اندر بھر دیا جائے‘ خواہ اس کے لئے پانی مشکیزوں میں بھر کر ہی کیوں نہ لانا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی فاضل چیف جسٹس نے پاکستان کی ثقافتی تاریخ کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مندر محض ہندوئوں کی ایک عبادت گاہ کی وجہ سے ہی اہم نہیں ہے‘ بلکہ ہمارے قومی ورثے کا حصہ بھی ہے۔ عدالت میں حاضر اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے فاضل چیف جسٹس نے تجویز پیش کی کہ اس مسئلے کے فوری حل کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ''ہمارا مقصد جھیل میں پانی کی مقدار کو بحال کرنا ہے اور اگر اس کے لئے دس ٹیوب ویل بند کئے جائیں اور سیمنٹ کی فیکٹریوں کو پانی کی سپلائی بند کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے‘‘۔
کٹاس مندر یا کٹاس راج اسلام آباد سے تقریباً ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر لاہور جانے والی موٹروے کے قریب مندروں‘ ہندوئوں کی دیگر عبادت گاہوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک عبادت گاہ پر متشمل کئی عمارتوں کا ایک کمپلیکس ہے۔ ابتدا میں یہاں سات مندر تھے‘ جہاں پوجا پاٹ کے لئے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا سے ہندو یاتری آیا کرتے تھے‘ لیکن 1947ء کے بعد حکومت کی عدم توجہی اور ہندوئوں کے چلے جانے کے بعد یہ تاریخی عمارت اور اہم ثقافتی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا۔
اگرچہ اس مندر سے ملحق بعض عمارات کی تعمیر نویں اور گیارہویں صدی عیسوی کے درمیان عمل میں لائی گئی تھی‘ لیکن ہندوئوں کی دیومالائی روایات میں کٹاس راج کی تاریخ بہت پُرانی بتائی جاتی ہے۔ ان روایات کے مطابق مہابھارت کی مشہور جنگ کے ایک فریق ''پانڈو‘‘ نے اپنی جلا وطنی کا ایک بڑا حصہ یہاں بسر کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اس کی بنیاد ہندوئوں کے دوسرے بڑے ہیرو کرشن نے رکھی تھی۔ وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ان عمارتوں میں ہندوئوں کے نزدیک سب سے زیادہ متبرک پانی کی وہ جھیل ہے‘ جس کے بارے قدیم روایت یہ ہے کہ جب ہندوئوں کے دیوتا ''شیو‘‘ کی بیوی پاروتی کا انتقال ہوا تھا تو اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے تھے۔ ان میں سے ایک متھرا میں گرا تھا‘ جس کی وجہ سے متھرا کی جھیل بن گئی‘ اور دوسرا آنسو کٹاس میں گرا‘ جس نے کٹاس کی جھیل کی شکل اختیار کر لی۔ اس جھیل میں پانی کبھی خشک نہیں ہوا تھا۔ ہندو یاتری اس جھیل میں اشنان کو اپنی عبادت کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق اس جھیل میں ڈبکی لینے سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں‘ اور انسان پوتّر ہو جاتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس جھیل کے پانی میں قدرت نے بہت سے امراض سے شفا کی صفت رکھی ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان کی کسی حکومت نے اس قدیم اور مشہور مذہبی اور ثقافتی مرکز کی دیکھ بھال کی طرف توجہ نہیں دی۔ اپنے دور میں یہ مقام محض ہندوئوں کی عبادت گاہ کے طور پر ہی مشہور نہیں تھا‘ بلکہ ایک علمی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت سے بھی دور دور تک جانا جاتا تھا۔ یہاں لوگ علم کے حصول کیلئے آتے تھے۔ مشہور مسلم مورخ البیرونی نے یہیں بیٹھ کر اپنی کتاب ''کتاب الہند‘‘ تحریر کی اور سنسکرت سیکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جن روحانی ہستیوں نے کٹاس راج کی یاترا کی ان میں سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک بھی شامل تھے۔ کٹاس مندر کا فوری مسئلہ مقدس جھیل میں پانی بھرنے کا ہے‘ لیکن اس ثقافتی ورثے کے حوالے سے دو اور مسائل کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے‘ جن کی طرف عدالت عظمیٰ کے علاوہ حکومت کو بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ جب کسی علاقے میں صنعتیں اور فیکٹریاں لگائی جائیں تو ان کے ماحولیات پر اثر کا جائزہ (Environmental Impact) لینا قانوناً لازمی ہے۔ کلرکہار میں جب سیمنٹ فیکٹریاں لگانے کی تجویز سامنے آئی تو بعض حلقوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی‘ کیونکہ اس اقدام سے اس وادی کے حسن اور ثقافتی ورثے پر برے اثرات پڑنے کا احتمال تھا‘ لیکن ان تمام خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے فیکٹریاں لگائیں گئیں۔ معلوم کرنا چاہئے کہ آیا ان فیکٹریوں کی تنصیب کیلئے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے‘ اور اجازت کیلئے درخواست پیش کرنے کا تقاضا پورا کیا گیا تھا یا نہیں؟ اس حسین وادی میں سیمنٹ انڈسٹری کے قیام سے ماحول پر جو برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ ان کا اندازہ اس اطلاع سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقے میں نصب صرف ایک فیکٹری میں استعمال ہونے والا پانی پورے چکوال شہر کے زیر استعمال پانی سے زیادہ ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کی ضرورت کے پیش نظر ہر نئی انڈسٹری کی تنصیب کیلئے Environmental Impact Assessment Study (EIAS) کی رپورٹ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ ان میں صرف پانی کے ذخائر‘ ہوا کی کیفیت پر اثر کا ہی جائزہ نہیں لیا جاتا بلکہ حیاتیات‘ وائلڈ لائف‘ آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے پر اثرات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اگر رپورٹ میں ان میں سے کسی کا بھی متاثر ہونا ثابت ہو جائے‘ تو اس انڈسٹری‘ خواہ اس کی معاشی اہمیت کتنی ہی کیوں نہ ہو‘ کے قیام کی اجازت نہیں دی جاتی‘ لیکن ہمارے ہاں اکثر EIAS رپورٹیں جعلی تیار کی جاتی ہیں اور ان کی بنیاد پر این او سی حاصل کر لیا جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ کٹاس مندر اور اس سے ملحق دیگر عمارتوں اور پورے کمپلیکس کی دیکھ بھال کا ہے۔ 1947ء سے پہلے اس مسئلے کا وجود نہیں تھا، مگر تقسیم ہند کے بعد یہ قیمتی قومی ورثہ قدرت کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ انسانوں کی وجہ سے بھی تباہی و بربادی کا شکار ہونے لگا۔ 2005ء میں اس وقت کے بھارتی نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے کٹاس مندر پر حاضری دی‘ لیکن اس کی زبوں حالی دیکھ کر بڑے رنجیدہ ہوئے اور حکومت پاکستان‘ خصوصاً حکوتِ پنجاب سے درخواست کی کہ وہ مندر کی رینوویشن کیلئے اقدام کرے۔ اس طرح مندر کی رینوویشن کا کام شروع کیا گیا‘ جو اب تک جاری ہے‘ لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد آثار قدیمہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی بجائے‘ صوبائی حکومتوں پر ہے۔ اس طرح کٹاس مندر کی رینوویشن کا کام اب پنجاب حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ ایڈوانی کے دورے کا صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ کٹاس مندر کو شکست و ریخت سے بچانے کیلئے اقدامات کا آغاز ہوا‘ بلکہ بھارت سے آنے والے یاتریوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا۔ لیکن 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ جس طرح سکھ یاتریوں کو ویزے کے اجزا میں لبرل پالیسی اختیار کر رکھی ہے‘ وہی معیار ہندو یاتریوں کیلئے بھی استعمال کرے‘ کیونکہ پاکستان میں سکھوں کی طرح ہندوئوں کے بھی بہت سے مذہبی اور ثقافتی مقامات ہیں‘ جن کی یاترا کی خاطر بڑی تعداد میں ہندو پاکستان آنے کیلئے تیار ہوں گے۔ اس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات بہتر ہوں گے‘ بلکہ دونوں ملکوں کے سماج میں عدم برداشت‘ نفرت اور انتہا پسندی جیسے منفی رجحانات کی جگہ خیر سگالی‘ محبت اور تعاون جیسے مثبت جذبات بھی پروان چڑھیں گے۔