ماڈل ٹائون سانحہ کے بارے میں جسٹس باقر نجفی رپورٹ عام ہونے کے بعد ادارہ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے آئندہ لائحہ عمل کو بڑی واضح شکل میں پیش کر دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور صوبے کے وزیر قانون رانا ثنااللہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں اور 14 بے گناہ‘ معصوم اور نہتے شہریوںکی پولیس کے ہاتھوں شہادت کی تحقیقات کے لئے پانامہ لیکس کی طرز پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے۔ اور اگر یہ مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو عوامی تحریک کے ارکان سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہیں۔ جہاں تک پولیس کے ہاتھوں ماڈل ٹائون میں تحریک کے کارکنوں کی شہادت کا تعلق ہے‘ ڈاکٹر قادری اس پر انصاف طلب کرنے میں مکمل طور پر حق بجانب ہیں اور ریاستی اداروں کو اس کیس میں اس طرح سنجیدگی اور دلچسپی لینی چاہئے‘ جس طرح انہوں نے پاناما کیس میں لی تھی۔ اس لئے کہ اس مسئلے پر پورے ملک میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اتنے بڑے جرم کے مرتکب افراد کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملنی چاہئے۔ تاہم سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اور وفود نے جس طرح لاہور میں منہاج القرآن کے ہیڈ کوارٹر میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے یکے بعد دیگرے ملاقاتیں کی ہیں‘ اس سے گمان ہوتا ہے کہ ان سرگرمیوں کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ اب تک لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے در پر حاضری دینے والوں میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری‘ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی‘ قائد اعظم مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین‘ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے بانی صدر مصطفیٰ کمال شامل ہیں۔ ان تمام رہنمائوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے ہمراہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی۔ عمران خان نے ابھی تک لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات نہیں کی۔ لیکن وہ ٹیلی فون پر ان سے بات کرنے کے علاوہ شیخوپورہ کے جلسہ عام میں ڈاکٹر صاحب کو یقین دلا چکے ہیں کہ جب ان کی تحریک کے ارکان موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آئیں گے تو پاکستان تحریک انصاف کے ارکان ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جن باقی رہنمائوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی‘ انہوں نے بھی منہاج القرآن کے سربراہ سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ اگر انہوں نے موجودہ حکومت اور خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تو ان کا پورا پورا ساتھ دیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی جماعتیں پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کے خاتمے کو اپنا ٹارگٹ بنا چکی ہیں اور وہ یہ ٹارگٹ اگلے سال مارچ سے پہلے پہلے حاصل کرنا چاہتی ہیں‘ کیونکہ موجودہ سیٹ اپ برقرار رہتا ہے تو سینیٹ‘ جہاں 104 ممبران کے ایوان میں اس وقت اپوزیشن کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے پاس کم تعداد میں نشستیں ہیں‘ لیکن ملک کی صوبائی اسمبلیوں میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ کی جو پوزیشن ہے اس کے پیش نظر مسلم لیگ ن کی سینیٹ میں پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو ڈر ہے کہ اگر سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر ہو گئی تو اس کی بنیاد پر مسلم لیگ کی حکومت‘ جسے اتحادیوں سمیت قومی اسمبلی میں پہلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل ہے‘ آئین کی دفعہ 62F میں ترمیم کرنے کے قابل ہو جائے گی‘ جس کے تحت نواز شریف کو تاحیات قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ ترمیم کی صورت میں نواز شریف کے ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان کی جانب سے فوری انتخابات کرانے کے مطالبے کا بھی یہی مقصد تھا‘ لیکن ان کے اس مطالبے کو کسی اور سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو سکی‘ بلکہ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی اور اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کی سخت مخالفت کی اور اس بات پر اصرار کیا کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے‘ لیکن ماڈل ٹائون سانحہ پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک کے کارکنوں کی طرف سے دھرنا یا احتجاجی تحریک کے امکانات نے اپوزیشن کی کئی پارٹیوں کی امیدوں کو پھر سے جگا دیا ہے‘ جو موجودہ اسمبلیوں کو ان کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی تحلیل کروا کے قبل از وقت انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں۔ اور خاص طور پر پنجاب میں شہباز شریف کو راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے کیونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہدف وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون کے استعفے ہیں۔ پی ٹی آئی‘ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ق پاکستان عوامی تحریک کے اس مطالبے کی زور و شور سے اس لئے حمایت کر رہی ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ شہباز شریف کے ہٹنے سے انہیں ہی فائدہ ہو گا‘ بلکہ یہ تمام پارٹیاں بشمول پی پی پی بخوبی جانتی ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ایسی حکومت‘ جس کے سربراہ شہباز شریف ہوں‘ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ اس لئے وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی‘ جن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی ممکنہ احتجاجی تحریک کی حمایت بھی شامل ہے‘ لیکن کیا یہ احتجاجی تحریک شروع ہو گی؟ اور اسے شروع کر دیا جاتا ہے تو کیا یہ تحریک اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہو سکتی ہے؟
اگرچہ پاکستان عوامی تحریک اپنے دو سابقہ دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں میں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے؛ تاہم اس میں ایک نئی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی طاقت اور صلاحیت موجود ہے‘ کیونکہ یہ ایک منظم جماعت ہے۔ اس کے ارکان جذبے سے سرشار ہیں اور اپنے لیڈر یعنی ڈاکٹر طاہرالقادری پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں؛ تاہم یہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کی متحدہ تحریک کی شکل اختیار نہیں کر سکتی۔ جن سیاسی رہنمائوں نے لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی حمایت کا اعلان کیا ہے‘ وہ اپنی جگہ تاہم ان میں سے کئی سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں‘ جن کو ابھی تک ڈاکٹر طاہرالقادری کی سربراہی میں حکومت مخالف تحریک چلانے پر تحفظات ہیں۔ صرف پی پی پی ہی بلکہ عمران خان کی پی ٹی آئی کو بھی یہ گوارا نہ ہو گا کہ پاکستان عوامی تحریک موجودہ حکومت کو گرانے کا سہرا اپنے سر باندھ لے۔ جتنی سیاسی پارٹیوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے‘ ان سب کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے‘ اور انہیں صرف اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی فکر ہے۔ اس کا علم ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی ہے۔ اسی لئے انہوں نے ابھی تک تحریک چلانے کے لئے کسی مشترکہ پلیٹ فارم یا رابطہ کمیٹی کے قیام میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ مختلف سیاسی پارٹیوں پر مشتمل متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے ایک ملک گیر تحریک چلانے کیلئے جو جذبہ اور منصوبہ بندی درکار ہے‘ وہ ابھی نظر نہیں آتی۔ اگر ہم قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے اس بیان کو پیش نظر رکھیں‘ جو انہوں نے سکھر میں دیا‘ کہ پیپلز پارٹی کا موجودہ حکومت کو گرانے کا ارادہ نہیں اور پیپلز پارٹی قبل از وقت انتخابات کے حق میں نہیں‘ بلکہ چاہتی ہے کہ موجودہ حکومت اور اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کسی ایسی تحریک کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں‘ جس کی تصویر پی ٹی آئی یا ق لیگ کے رہنما اپنے ذہنوں میں لئے پھر رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور انتخابات وقت پر ہوں گے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کسی دھرنے یا تحریک کی نوبت آتی ہے تو اس سے نہ تو وفاقی حکومت کی چھٹی ہو گی اور نہ پنجاب میں شہباز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر ان کے سیاسی مخالف اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔