پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع سات ایجنسیوں پر مشتمل اور وفاقی حکومت کے زیر اہتمام قبائلی علاقوں‘ یعنی فاٹا کا مستقبل ایک دفعہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا ہے‘ کیونکہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ پروگرام کے برعکس اس مقصد کے لئے بل قومی اسمبلی کے اجلاس (برائے 11 دسمبر) میں پیش نہیں کیا جا سکا‘ حالانکہ یہ بل ایجنڈے میں شامل تھا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور جناب عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ بل پیش کرنے کی راہ میں کچھ ٹیکنیکل مشکلات درپیش ہیں‘ انہیں دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جب یہ مشکلات دور ہو جائیں گی تو بل پیش کر دیا جائے گا۔ ایک اور وفاقی وزیر کا موقف یہ تھا کہ اس بل پر مزید صلاح مشورے کی ضرورت ہے‘ اور جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا‘ تو بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب حزب مخالف میں شامل تمام جماعتوں کی طرف سے سخت رد عمل آیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے رواں سیشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور ان کا اعلان ہے کہ جب تک حکومت ایوان میں یہ بل نہیں لاتی‘ بائیکاٹ جاری رہے گا۔ جماعت اسلامی نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور اس مقصد کے لئے فوری اقدام کے مطالبے پر ایک ریلی نکالی تھی‘ جس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی شرکت کی تھی۔ جماعت اسلامی نے حکومت کو الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ اگر 31 دسمبر تک فاٹا اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش نہ کیا گیا تو اگلے سال کے آغاز میں جماعت اسلامی اس ایشو کو بنیاد بنا کر اسلام آباد میں دھرنا دے گی۔ اسی قسم کا اعلان پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے بھی کیا جا چکا ہے۔ معلوم نہیں حکومت‘ جسے پہلے ہی متعدد مسائل نے گھیر رکھا ہے اور جسے متعدد چیلنجوں کا بھی سامنا ہے‘ علاوہ ازیں ہر طرف سے احتجاجی تحریکوں اور دھرنوں کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں‘ اس مسئلے پر کیوں تاخیر کر رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو مزید مشکل میں ڈال رہی ہے‘ حالانکہ فاٹا کے مستقبل کے بارے میں یہ بل حکومت کا اپنا تیار کردہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے تقریباً دو برس قبل جناب سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی تھی‘ جس نے مختلف سٹیک ہولڈرز کی رائے لینے اور صلاح مشورے کے بعد فاٹا میں اصلاحات لانے اور اسے بتدریج صوبہ پختونخوا کا حصہ بنانے کی سفارش کی تھی۔ دوسری کئی سفارشات بھی پیش کی گئی تھیں۔ ان سفارشات کی وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری دی جا چکی ہے۔ اس پر قومی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے درمیان بھی اتفاق ہو چکا ہے‘ پھر نہ جانے ان سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بل پیش کرنے میں کیوں تاخیر ہو رہی ہے۔
یہ تاخیر اس حقیقت کے باوجود ہو رہی ہے کہ فاٹا میں نو آبادیاتی دور کے استبدادی نظام کی جگہ موجودہ اور جمہوری دور کے مطابق تبدیلیوں پر سب کا اتفاق ہے اور اس پر بھی سب متفق ہیں کہ یہ کام فوری طور پر ہونا چاہئے تاکہ فاٹا کے عوام کو دوسرے صوبوں کے عوام کے برابر لایا جا سکے۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے اور اگر مزید دیر کی گئی تو یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جائے گا۔ خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتی جب تک فاٹا کے عوام کو پاکستان کے باقی حصوں میں رہنے والے شہریوں کی طرح برابر کے انسانی‘ قانونی اور آئینی حقوق نہیں دئیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ پاک فوج کی جانب سے بھی فاٹا میں ضروری انتظامی‘ معاشی اور سیاسی اصلاحات پر زور دیا جا رہا ہے‘ کیونکہ فوج کے مطابق دہشت گردی کے خلاف مختلف آپریشنوں مثلاً ضربِ عضب اور ردالفساد میں اب تک جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں‘ انہیں برقرار رکھنے اور صورتحال کو مزید مستحکم کرنے کے لئے فاٹا میں اصلاحات اور وہاں کے عوام کو پاکستان کو پاکستان کے باقی لوگوں کے برابر حقوق دینا بہت ضروری ہے۔ اسی حوالے سے ایک صائب بیان حال ہی میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی قبائلی زعما اور دیگر لیڈروں کے ساتھ ملاقات کے دوران جاری کیا‘ مگر یہ سب کچھ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ کیونکہ سارے انتظامی اختیارات اسی کے پاس ہیں‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ مسئلے کی اہمیت کا اقرار کرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا‘ حتیٰ کہ وہ اب فاٹا اصلاحات بل پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ کچھ حلقوں کے مطابق اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ برسرِ اقتدار پارٹی کی سیاسی مصلحتیں ہیں‘ کیونکہ مخلوط حکومت میں شامل دو سیاسی جماعتیں یعنی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی اس بل کے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی اس لئے مخالفت کر رہی ہیں کہ اس میں فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش کی گئی ہے‘ اور ان دونوں پارٹیوں کے رہنما بالترتیب مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی صوبہ پختون خوا میں فاٹا کے انضمام کے خلاف ہیں‘ حالانکہ یہ دونوں بنیادی طور پر پختون پارٹیاں ہیں اور ان کا ووٹ بینک بھی پختون علاقوں میں ہے۔ اب تک ان دونوں رہنمائوں کی طرف سے اپنے مؤقف کے حق میں ٹھوس دلیل پیش نہیں کی گئی۔ سوائے اس کے کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے اور اس مقصد کے لئے ریفرنڈم کروایا جانا چاہئے‘ لیکن نئے صوبوں کی تشکیل یا پُرانے صوبوں یا علاقوں کو دوسرے صوبوں میں شامل کرنے کے لئے آئینِ پاکستان میں جو طریقہ دیا گیا ہے‘ اس میں ریفرنڈم کا ذکر نہیں۔ یہ ایک انتظامی اقدام ہے‘ کیونکہ فاٹا پہلے ہی وفاق کاحصہ ہے اور وفاق ہی اسے کنٹرول کرتا ہے۔ اس لئے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے صوبہ پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کی مخالفت اس لئے بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ صوبے کی دو اور اہم سیاسی پارٹیوں یعنی اے این پی اور آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی‘ پورے زور و شور سے فاٹا کو صوبہ پختون خوا کا حصہ بنانا چاہتی ہیں اور اس معاملے کی مکمل حمایت کر رہی ہیں۔
ویسے جغرافیائی‘ معاشی اور ثقافتی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس طرح بھی فاٹا عملی طور پر صوبہ پختون خوا کا حصہ ہے۔ ان علاقوں کی جغرافیائی سرحدیں پختون خوا سے منسلک ہیں۔ فاٹا سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے تمام اہلکار صوبہ پختون خوا کی حکومت کے ملازم ہیں اور صوبے کا گورنر وفاقی حکومت کی طرف سے فاٹا کا انتظامی سربراہ ہے۔ اس لئے فاٹا کو صوبہ پختون خوا کا حصہ بنانے اور اس میں اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لانے کی کیوں مخالفت کی جا رہی ہے؟ وجوہات کچھ بھی ہوں ایک بات واضح ہے کہ اس معاملے میں مزید تاخیر نئی الجھنوں کا باعث بنے گی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہو گا۔ اب تک جو تاخیر ہو چکی ہے‘ اس کی وجہ سے فاٹا کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے عناصر پہلے کے مقابلے میں زیادہ مستعد بلکہ سرگرم ہو چکے ہیں‘ اور اگر حکومت نے اصول پرستی اور دانش مندی سے کام لینے کی بجائے سیاسی مصلحت کوشی کا ثبوت دیا‘ تو اس کا نہ صرف فاٹا کے عوام اور ملک کو نقصان ہو گا بلکہ حکومت کو بھی اپنی اس سیاسی موقعہ پرستی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ مسائل کے گرداب میں مزید دھنسنے سے بچنے کے لئے حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔