چھ دہائیوں سے زائد پر محیط پاک امریکہ تعلقات میں کئی نشیب و فراز آتے رہے ہیں‘ لیکن مبصرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں دونوں ملکوں کے تعلقات‘ جتنے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں خراب ہوئے ہیں‘ کبھی نہیں تھے۔ اس کا اظہار صدر ٹرمپ کی 21 اگست کی تقریر اور حال ہی میں نائب صدر مائیک پینس کے ایک بیان سے ہوتا ہے‘ جو انہوں نے افغانستان کے دورے کے دوران میں ایک فوجی اڈے پر تعینات امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے جاری کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے 21 اگست کو افغانستان کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ سے اربوں ڈالر حاصل کر چکا ہے‘ لیکن عملاً اس نے افغانستان میں کابل انتظامیہ اور امریکی افواج کے خلاف جنگ کرنے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو اپنے ہاں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں ۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اب بھی پاکستان سے قریبی تعلقات اور تعاون کا خواہاں ہے‘ لیکن اسے یہ روش ترک کرنا پڑے گی۔ یہی پیغام ٹرمپ نے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی سٹرٹیجی کا اعلان کرتے ہوئے دیا تھا۔ لیکن نائب صدر پینس نے تو انتہا کر دی۔ فرماتے ہیں کہ کافی عرصہ سے پاکستان نے اپنی سرزمین پر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو محفوظ پناہ گاہیں دے رکھی ہیں‘ لیکن اب یہ پالیسی نہیں چلے گی۔
ٹرمپ کی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر پینس نے کہا کہ اگر پاکستان امریکہ سے تعاون کرتا ہے تو اسے بہت فائدہ ہو گا‘ لیکن اگر افغانستان میں اس کی پالیسی کے خلاف قدم اٹھائے گا تو اسے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مبصرین کے مطابق امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی اب تک کی تمام دھمکیوں میں سے یہ سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ کیا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کسی بڑے تصادم یا بحران کا شکار ہونے جا رہے ہیں؟ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ملک جس طرح ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں‘ بلکہ الفاظ کی جنگ میں الجھتے جا رہے ہیں‘ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیان اور ردّ بیان کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو باہمی تعلقات بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ جائیں گے‘ کیونکہ امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اپنے ہاں دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کی تو امریکہ پاکستانی علاقوں میں گھس کر ان گروپوں اور تنظیموں کے افراد اور ان کے اڈوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ امریکی اقدام کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس سلسلے میں مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔
بعض کے نزدیک امریکہ پاکستان کو دی جانے والی اقتصادی امداد بند کرنے کے ساتھ پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ اب تک پاکستانی علاقوں میں چار ڈرون حملے کر چکا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 2011 میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی حملے کی طرز پر بھی امریکہ پاکستان میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ اسی قسم کا خدشہ حال ہی میں سینیٹ آف پاکستان کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو بار بار متنبہ کرنے کے بعد پاکستانی علاقوں پر امریکہ کے ڈرون حملوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وزیر خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان ان حملوں کو روکنے کے لئے کیا جوابی کارروائی کرے گا؛ تاہم پاک فضائیہ کے سربراہ ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی فضائی خلاف ورزیوں کے مرتکب ڈرون طیاروں کو مار گرایا جائے گا۔ پاک آرمی کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسی طرح کا ایک بیان امریکہ میں ہمارے سفیر اعزاز چودھری نے بھی دیا ہے کہ ڈرون حملوں یا پاکستان کے خلاف امریکہ کی کسی کارروائی کی صورت میں‘ پاکستان نے امریکہ کو‘ اس کے راستے افغانستان میں اپنے فوجی دستوں کو کمک اور ساز و سامان کی ترسیل کی جو سہولت دے رکھی ہے، وہ ختم ہو سکتی ہے۔
اس طرح آثار تو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کسی بڑے بحران یا مکمل بریک ڈائون کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے مطابق صورتحال اتنی حوصلہ شکن نہیں ہے۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے اور مفاہمت کو پروان چڑھانے کے لئے باہمی رابطے قائم کئے گئے ہیں اور بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تعلقات اور تعاون برقرار رہے گا۔
اسی طرح امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن کے ایک سکالر اورجنوبی ایشیائی امور کے ماہر‘ مائیکل کگل مین نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ پاک امریکی تعلقات کی موجودہ صورتحال‘ جس میں امریکی پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ اسی طرح جاری رہے گی اور دونوں ملکوں میں فی الحال کسی بڑے بحران کا امکان نہیں۔ البتہ آئندہ چند ماہ اہم ہیں۔ اگر ان دنوں امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لئے چند اقدامات کرتا ہے تو دونوں کے تعلقات خطرناک بحران سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ ان اقدامات میں سپیشل فورسز کے ذریعے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف زمینی کارروائی بھی ہو سکتی ہے‘ لیکن ایسا کرنا امریکہ کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ امریکہ اس قسم کی کارروائی صرف اس وقت کرتا ہے‘ جب اسے انٹیلی جنس شیئرنگ کی صورت میں پاکستان کا تعاون حاصل ہو گا۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے ایک ترجمان کی طرف سے بھی حال ہی میں ایک بیان جاری کیا گیا ہے‘ جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے میں امریکی ترجیحات کے حصول کے لئے پاکستان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے؛ تاہم امریکہ نے بھی پاکستان سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔
اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان حفاظتی جنگ میں تیزی آ گئی ہے؛ تاہم فریقین باہمی تعلقات کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتے۔ افغانستان کے مسئلہ میں دو اور اہم سٹیک ہولڈر یعنی روس اور چین بھی امریکہ اور پاکستان کے درمیان تصادم کے حق میں نہیں۔ بلکہ چین تو سرکاری طور پر افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کی اپیل کر چکا ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے بھی اپنے ملک کی طرف سے امریکہ کو افغان مسئلے کے حل میں مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس لئے اغلب امکان یہ ہے کہ موجودہ کشیدگی کے باوجود امریکہ اور پاکستان کسی بڑے تصادم کی طرف بڑھنے کی بجائے افغان مسئلے کے حل کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو ترجیح دیں گے۔