چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نئے سال کے موقع پر کہا ہے کہ پاکستان کے لئے یہ سال زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال ملک کو اندرونی اور بیرونی‘ دونوں محاذوں پر مشکل چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان میں سے کچھ چیلنجز کا قوم نے کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور باقی چیلنجز سے بھی نمٹ لیا جائے گا‘ کیونکہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستانی قوم کی سپرٹ کو شکست نہیں دے سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع ہونے والا سال پاکستانی عوام اور ان کی قیادت کے لئے کئی آزمائشیں اور امتحانات اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے‘ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سول اور فوجی قیادت ان آزمائشوں سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے اور درپیش امتحانات پر کیسے پورا اترتی ہے۔ اگر ان چیلنجز کا صحیح ادراک کیا گیا اور ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے درست سمت اختیار کی گئی تو قوم اس دورِ ابتلا میں سے کامیابی سے نکل سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا‘ کیونکہ سال 2018ء میں پاکستان کو جن داخلی اور خارجہ چیلنجز کے سامنے کی توقع ہے‘ ان کی بنیاد سال 2017ء میں بلکہ اس سے بھی پہلے کے برسوں میں رکھی گئی تھی۔ اور ہم نے اپنی سمت درست کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ مثلاً داخلی محاذ پر سیاسی محاذ آرائی ‘ جس کا آغاز 2014ء میں لانگ مارچ اور دھرنوں کی صورت میں ہوا تھا‘ نے اور بھی شدید صورت اختیار کر لی ہے۔ اس وقت قومی سیاست واضح طور پر دو دھڑوں میں منقسم نظر آ رہی ہے۔
ایک دھڑا حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور دوسرا مخالف یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کھڑا ہے۔ حال ہی میں ان سیاسی پارٹیوں نے حال ہی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں جن دیگر سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی ان میں جماعت اسلامی‘ پاکستان مسلم لیگ ق ‘ ایم کیو ایم اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ شامل ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا 7 جنوری تک استعفیٰ طلب کیا ہے۔ یہ کانفرنس سانحہ ماڈل ٹائون کے شہدا کے مسئلے پر بلائی گئی تھی اور کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں (سوائے ایم کیو ایم) نے صوبائی وزیر اعلیٰ ‘ وزیر قانون کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ اب بھی 7 جنوری کی ڈیڈ لائن کے بعد ہی آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا‘ تاہم ان جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے صدرمحمد نواز شریف نے بھی ''تحریکِ عدل‘‘کے نام سے جلسوں اور اجتماعات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سندھ میں پیر صاحب پگاڑا کے قیادت میں تشکیل پانے والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے بھی اجتماعی جلسوں کے پروگرام کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایم کیو ایم کا وہ دھڑا‘ جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں‘ اور مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی بھی احتجاجی تحریکوں کی دھمکی دے چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تقریر کے ہر دوسرے جملے میں سڑکوں پر آنے کی دھمکی ہوتی ہے۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سال 2018ء میں پاکستان جس جنس کی سب سے زیادہ فراوانی ہو گی‘ وہ احتجاجی تحریکیں ہیں اور یہ سب کی سب گزشتہ برسوں کے حالات و واقعات کا تسلسل ہیں۔ ابھی ان تحریکوں میں سے بعض کا آغاز نہیں ہوا اور بعض نے اب بھی زور نہیں پکڑا لیکن ان کی وجہ سے بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کا جو خطرہ ہے‘ اس کے آثار ابھی سے نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ معیشت کی حالت دگرگوں ہے اور 2018ء کے انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ بعض حلقے تو پورے وثوق کے ساتھ دعوے کر رہے ہیں کہ یہ انتخابات بروقت نہیں ہوں گے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ سال بے یقینی اور سیاسی کشمکش میں گزر جائے گا۔
بیرونی محاذ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا پاکستان کو ذمہ دار قرار دے کر یک طرفہ کارروائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں قریبی تعلقات بلکہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ نے پاکستان کی مغربی ہی نہیں بلکہ مشرقی سرحدوں پر بھی انتہائی خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔ جیسا کہ چیف آف دی آرمی سٹاف نے کہا ہے کہ پاکستانی قوم میں ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے صلاحیت موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک کیلئے جو داخلی طور پر بھی سیاسی محاذ آرائی اور معاشی مشکلات سے دو چار ہو‘ بیرونی سرحدوں پر امریکہ اور بھارت جیسی دو طاقت ور قوتوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ چین کے سوا پاکستان کے باقی تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر حالات خراب ہیں ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ملنے والی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر دونوں طرف سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں‘ بلکہ طرفین کے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے آخری ہفتے میں بھارتی حملے میں ہماری سرحد کے محافظین میں سے تین شہید ہوئے۔ ان کے مقابلے میں بھارت نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فائرنگ سے ان کے پانچ جوان مارے گئے‘ جن میں ایک آفیسر بھی تھا۔ دونوں طرف سے فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے سرحدوں پر کشیدگی بڑھ رہی ہے‘ جس کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بڑھتے بڑھتے کسی بڑے تصادم پر منتج نہ ہو جائے۔ غالباً اسی امکان کو روکنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں نے تھائی لینڈ میں ملاقات کر کے سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی سرحد کی طرح پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہیں ۔ خصوصاً افغانستان کی طرف سے سرحد پار فائرنگ اور دہشت گردوں کے حملوں میں پاک فوج اور ایف سی کے متعدد جوان اور افسران شہید ہو چکے ہیں، ان کارروائیوں کا سلسلہ روکنے کیلئے پاکستان افغانستان کے ساتھ ملنے والی تمام سرحد پر باڑ لگا رہا ہے۔ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ اس سے دونوں ملکوں کی سرحدی کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باوجود مشترکہ سرحد دہشت گردوں‘ سمگلروں ‘ منشیات فروشوں اور انسانوں کی سمگلنگ کرنے والوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہے۔ یہ تمام مسائل سیاسی ہیں۔ ان کے حل کیلئے سیاسی بصیرت کے علاوہ سیاسی عزم بھی درکار ہے‘ جس کا بدقسمتی سے ابھی تک مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے۔
بیرونی محاذ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا پاکستان کو ذمہ دار قرار دے کر یک طرفہ کارروائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں قریبی تعلقات بلکہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ نے پاکستان کی مغربی ہی نہیں بلکہ مشرقی سرحدوں پر بھی انتہائی خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔ جیسا کہ چیف آف دی آرمی سٹاف نے کہا ہے کہ پاکستانی قوم میں ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے صلاحیت موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک کیلئے جو داخلی طور پر بھی سیاسی محاذ آرائی اور معاشی مشکلات سے دو چار ہو‘ بیرونی سرحدوں پر امریکہ اور بھارت جیسی دو طاقت ور قوتوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔