پاکستان کا صوبہ بلوچستان ملک کی تاریخ‘ سیاست‘ معیشت اور دفاعی حکمت عملی میں کئی منفرد خواص کا حامل ہے۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا (کُل رقبے کا 48 فیصد) اور آبادی کے لحاظ سے سب سے کم (کل آبادی کے چھ فیصد سے بھی کم)‘ معدنیات کی دولت سے مالا مال لیکن عوام انتہائی غریب۔ بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ طویل ساحل اور خلیج فارس کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بلوچستان کو قومی دفاع میں ہی ایک اہم کردار حاصل نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کی دفاعی حکمتِ عملی میں بھی اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ 1955ء میں امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے دفاعی معاہدے ''معاہدۂ بغداد‘‘ جسے بعد میں ''سنٹو‘‘ کا نام دیدیا گیا تھا‘ میں پاکستان کو اس لئے شامل کیا گیا تھا کہ اس کا ایک حصہ یعنی بلوچستان خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ جغرافیائی طور پر متصل تھا۔ لیکن زیر نظر کالم میں بلوچستان کے چند ایسے اہم حالات اور واقعات کا ذکر مقصود ہے‘ جو ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو اس حقیقت کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ آزادی کے بعد 23 برس تک بلوچستان کو پاکستان کے باقی صوبوں کے برابر صوبائی درجہ نہ دیا جا سکا۔ یہ فیصلہ 1970ء میں کیا گیا‘ جب ملک میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت تھی۔ بلوچستان میں اس وقت بھی فوجی افسروں کی کمانڈ میں ایف سی کا ''گڑبڑ پھیلانے والے عناصر‘‘ کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے نزدیک بلوچستان ہمیشہ ایک ''پرابلم‘‘ صوبہ ہی رہا ہے۔ اور اس ''پرابلم‘‘ کو سیاسی نوعیت کا ایشو سمجھنے کی بجائے‘ اسے جان بوجھ کر لاء اینڈ آرڈر کا رنگ دیا جاتا رہا ہے۔
بلوچستان کے ایک سابق گورنر اور موجودہ وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے ایک دفعہ ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو میں کہا تھا کہ حکمران طبقے کے نزدیک ہر بلوچ غدار ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملک میں گمشدہ افراد (Missing persons) کے جتنے مقدمات درج ہوئے‘ ان میں سے بھاری اکثریت کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کو بجا طور پر ملک کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے ایک گیم چینجر کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت کا اظہار بہت کم کیا جاتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کا تمام تر دار و مدار بلوچستان پر ہے۔ کیونکہ اس کے ساحل پر واقع گوادر بندر گاہ سے ہی چین کا تجارتی‘ ثقافتی اور سیاسی اثر و رسوخ خلیج فارس‘ ہارن آف افریقہ اور ان علاقوں سے آگے مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے۔ بلوچستان کی تاریخ‘ جغرافیائی محل وقوع اور معاشی اہمیت کے بارے میں ایک نہیں کئی کالم اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور مزید لکھی جا سکتی ہیں‘ لیکن اس وقت یہ کالم دراصل بلوچستان میں وزیراعلیٰ سردار ثنااللہ زہری کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اور ممکنہ کامیابی کی صورت میں باقی ملک‘ خصوصاً جمہوری سیاسی عمل کے لئے اس کے مضمرات کا جائزہ لینے کے لئے لکھا گیا ہے۔
سردار ثنااللہ زہری 2013ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی پانچ سالہ آئینی مدت کے آدھا حصہ گزرنے کے بعد وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ ان سے پہلے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک صوبے کے وزیراعلیٰ تھے۔ صوبائی اسمبلی کی کل 65 نشستوں میں سے نیشنل پارٹی کی 11 نشستیں ہیں جبکہ نواب ثنااللہ زہری کی مسلم لیگ ن کے پاس اسمبلی کی 21 نشستں ہیں۔ اس بنا پر تو زہری حکومت اپنی پیش رو حکومت یعنی ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت سے زیادہ مستحکم ہونی چاہئے تھی۔ ان کی حکومت ایک مخلوط حکومت ہے‘ جس میں ن لیگ کے علاوہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ نیشنل پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مجلس وحدت المسلمین کے ارکان بھی شامل ہیں۔ ان ارکان کی کل تعداد 53 ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک بلوچستان میں اپوزیشن کا تعلق ہے تو وہ اپنی کم تعداد کی وجہ سے حکومت کو گرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ چنانچہ زہری حکومت کو اگر کوئی چیلنج درپیش ہے تو وہ صرف ان کی اپنی اور اپنی اتحادی پارٹیوں کی طرف سے ہے۔ اور صورتحال بھی یہی ہے۔ ان کی اپنی پارٹی یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی میں سے چند نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات اس نہج پر کیوں اور کیسے پہنچے؟ اور اگر ان کے مخالفین کا یہ مؤقف کہ زہری حکومت صوبے کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے‘ درست تسلیم کر لیا جائے تو ایک ایسے وقت میں جبکہ نئے انتخابات میں چند ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے‘ حکومت کی تبدیلی کا کیا جواز ہے؟ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اصل مقصد بلوچستان اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے آئندہ مارچ میں سینیٹ کی خالی نشستوں پر انتخابات کو سبوتاژ کرنا ہے تاکہ مرکز اور پنجاب میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں اکثریتی پوزیشن حاصل نہ کر سکے‘ لیکن وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے اراکین صوبائی اسمبلی نے اس استدلال کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا اصرار ہے کہ نواب ثنااللہ زہری کی حکومت ہٹانے سے اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی بلکہ حکومت بدستور پاکستان مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ کچھ حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی تحلیل بھی ہو جائے تب بھی مارچ میں سینیٹ کے انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ اس صورت میں سینیٹ میں صرف صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 14 سینیٹروں کی نشستیں خالی رہیں گی، لیکن ملک کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بلوچستان میں جب بھی کبھی کسی غیر معمولی سیاسی اور فوجی اقدام کا آغاز کیا گیا‘ تو اس نے پورے ملک پر اثر ڈالا۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی پہلی جمہوری اور منتخب سردار عطااللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کرکے یہ سمجھا کہ بلوچستان میں حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں مینگل حکومت کی برطرفی اور اس کے نتیجے میں صوبے میں فوج کشی نے بالواسطہ طور پر 1977ء کے فوجی ٹیک اوور اور بھٹو حکومت کی معزولی کی راہ ہموار کی۔ 1988ء میں جبکہ بے نظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالے ابھی ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا‘ بلوچستان کی نو منتخب اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا۔ بظاہر تو یہ اقدام صوبائی گورنر جنرل (ر) محمد موسیٰ کی طرف سے کیا گیا‘ لیکن ہر جانب سے موردِ الزام بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ٹھہرایا گیا‘ کیونکہ گورنر وفاقی حکومت کا براہ راست نمائندہ ہوتا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومت کے اس غیر جمہوری اقدام نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو بے نظیر حکومت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ‘ میاں نواز شریف کو ایک صوبائی لیڈر سے قومی سطح کے لیڈر کا مقام دلانے کی راہ ہموار کی۔ اب بھی اگر صوبائی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیا ب ہوتی ہے تو اس کے نتائج قومی سطح پر ظاہر ہو سکتے ہیں‘ جس میں بلوچستان کے بعد دیگر صوبوں یعنی سندھ اور کے پی حکومتوں کی تحلیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اس طرح وہ طاقتیں‘ جو دیگر ذرائع سے سینیٹ کے انتخابات کو اب تک روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں‘ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گی۔