مقبوضہ ریاست‘ جموں و کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ریاست میں موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے بات چیت شروع کی جائے۔ محبوبہ مفتی نے اس نوعیت کا بیان پہلی دفعہ نہیں دیا ہے اس سے قبل بھی وہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت کو مشورہ دے چکی ہیں کہ کشمیر میں نہتے عوام کو دبانے اور نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے اور اس ضمن میں انہوں نے تجویز بھی دی تھی کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو امن اور مذاکراتی عمل شروع کیا گیا تھا‘ اُسے بحال کیا جائے کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ کشمیر کے حتمی حل کی بھی راہ نکل سکتی ہے‘ یہ رائے صرف وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی تک محدود نہیں ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی باقی قیادت مثلاً حریت کانفرنس بھی اسی رائے کی حامی ہے اور اُن کا استدلال یہ ہے کہ جب تک کشمیر پر مذاکرات میں پاکستان کو شامل نہیں کیا جاتا، کشمیر کا مسئلہ نہ صرف حل طلب رہے گا بلکہ تشدد اور تباہی میں مزید اضافہ ہو گا۔ حریت کانفرنس کے مرکزی لیڈر میر واعظ عمر فاروق کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو مل کر کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ڈھونڈنا چاہیے۔ میرواعظ عمر فاروق کے اس موقف کو عالمی سطح پر بھی تائید حاصل ہے۔ اس وقت بین الاقوامی برادری میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ بنیادوں پر‘ پُرامن مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہیے اور اس میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت اور مذاکراتی عمل کافی عرصہ سے معطل ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر آئے دن ایک دوسرے کے علاقوں پر گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات کا خصوصی طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے آرپار سے فائرنگ کا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو یہ کسی بڑے تصادم پر منتج ہو سکتا ہے اور چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں‘ اس لیے یہ تصادم دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پورا خطہ ناقابل بیان تباہی اور بربادی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کا امن بھی محفوظ نہیں رہ سکتا یہی وجہ ہے کہ دُنیا کے تمام بڑے ممالک جن میں امریکہ‘ روس‘ چین اور یورپی یونین بھی شامل ہے‘ پاکستان اور بھارت پر فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ چین نے تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد فراہم کرنے کیلئے اپنی خدمات کی بھی پیشکش کی تھی۔ لیکن بھارت نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا جبکہ پاکستان نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک مثبت اقدام قرار دیا تھا۔ بھارت کی طرف سے کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مسلسل انکار کی بنیادی وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور طاقت کا گھمنڈ ہے۔ خاص طور پر جب سے وزیراعظم مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے‘ نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی بھارت کے رویے میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ سختی دیکھنے میں آئی ہے۔ بھارت کی اس پالیسی کے پیچھے انتہا پسند ہندو جماعت آر ایس ایس کی سوچ کارفرما ہے۔ وزیراعظم مودی کی حکومت دراصل آر ایس ایس کے فلسفے پر ہی کاربند ہے۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات کے دوران بی جے پی نے برسراقتدار آنے کی صورت میں کشمیر کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت جو خصوصی مقام حاصل ہے‘ اُسے ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مودی سرکار نے اس دفعہ کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف ممکنہ ردعمل کو بھانپ کر ارادہ بدل دیا۔ لیکن اس کی جگہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضے کو دوام بخشنے کیلئے جس حکمت عملی پر کاربند ہے وہ بھی اسی طرح ناکام رہے گی۔ اس حکمت عملی کے دو پہلو ہیں؛ ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے پُرامن احتجاج کو طاقت کے زور پر دبایا جائے اور دوسرا یہ کہ کشمیر پر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جائے۔ طاقت کے اس اندھا دھند استعمال سے گزشتہ ایک سال چار ماہ کے عرصہ کے دوران دو سو سے زیادہ کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ لیکن کشمیریوں کی مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دوسری طرف بھارت کی موجودہ حکومت کشمیریوں کے ساتھ برائے نام ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں مودی حکومت نے آئی بی کے ایک سابق سربراہ دانشور شرما کی قیادت میں ایک وفد کو اکتوبر میں کشمیری سیاسی رہنمائوں کے ساتھ بات چیت کیلئے کشمیر بھیجا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کی یہ کوشش بھی ناکام ہوئی اور کشمیری رہنمائوں نے شرما سے ملاقات سے انکار کر دیا۔ اس طرح بھارت کو دوسرے محاذ پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تک بھارت کی ہر حکومت کی کوشش رہی ہے کہ دُنیا کے سامنے کشمیر کو ایک طے شدہ مسئلے کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ یہ ثابت ہو کہ کشمیر کا مسئلہ سرے سے ہی وجود نہیں رکھتا اور اگر کوئی چھوٹی موٹی گڑبڑ ہو تو بھارت نے اسے مرکزی حکومت اور ریاستی انتظامیہ یا حریت پسندوں کے درمیان جھگڑے کی حیثیت سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیگر الفاظ میں بھارت نے اب تک ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ کشمیر اور اس پر جھگڑے سے پاکستان کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ لیکن اس مقصد کے حصول میں بھارت بُری طرح ناکام رہا ہے۔ پاکستان کو کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت اقوام متحدہ میں خود تسلیم کر چکا ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بین الاقوامی تنازع ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی کوئی بھی صورت ہو کشمیر کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا یہی وجہ ہے کہ جب 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو جن مسائل کو اس ڈائیلاگ میں شامل کیا گیا تھا اُن میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ لیکن حسب روایت بھارت اپنی کمٹمنٹ سے ایک دفعہ پھر راہ فرار اختیار کر رہا ہے اور کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ سے گریزاں ہے۔ لیکن جس طرح ماضی میں بھارت اپنی کوششوں میں ناکام رہا، اب بھی بھارت کی موجودہ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بغیر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس وقت بین الاقوامی برادری میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ بنیادوں پر‘ پُرامن مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہیے اور اس میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت اور مذاکراتی عمل کافی عرصہ سے معطل ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر آئے دن ایک دوسرے کے علاقوں پر گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات کا خصوصی طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔