مشرق وسطیٰ کے ملک شام میں گزشتہ سات سال سے جاری خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کے نتیجے میں وہاں کے عوام جس تباہی اور بربادی کا شکار ہوئے‘ حالیہ دور میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس بدقسمت سرزمین کے نصیب میں ابھی بھی امن اور سکون نہیں ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب شام ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملک عراق میں بھی دہشت گرد تنظیم داعش کی کمر توڑی جا چکی ہے اور دونوں ملکوں میں اس کے زیرِ قبضہ علاقوں کو آزاد کرا لیا گیا ہے‘ شام میں جنگ کا ایک اور محاذ کھل گیا ہے۔ یہ محاذ ترکی کی طرف سے شام کے شمالی حصے میں فوجی کارروائی ہے۔ اس کارروائی کا نشانہ شمالی شام میں موجود کرد ملیشیا ہے‘ جسے امریکہ کی فوجی اور مالی امداد سے کھڑا کیا گیا ہے۔ ترکی کا مؤقف ہے کہ شام میں کردوں پر مشتمل یہ ملیشیا دراصل ترک کردوں کی پارٹی کرد پیپلز پارٹی (PKK) کی ہی ایک شاخ ہے۔ پی کے کے گزشتہ 30 برس سے ترکی کی حکومت کے خلاف ترک کردستان کی علیحدگی کے لئے مصروف ہے‘ اور امریکہ‘ یورپی یونین کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ شام کے شمالی علاقے میں ترکی کی سرحد کے ساتھ‘ شامی کردوں کی اس فوج کو سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں امریکی ہتھیاروں اور مالی امداد کے ساتھ منظم کیا گیا تھا‘ اور اطلاعات کے مطابق امریکہ اس علاقے کو شام سے علیحدہ کرکے وہاں ''کرد ملیشیا‘‘ کے مستقل قیام کا اہتمام کر رہا ہے۔ ترکی کے مؤقف کے مطابق شام کے کردوں پر مشتمل یہ ملیشیا اس کی سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہے‘ اور ترکی اس خطرے کا سدباب کرنے کیلئے ہر طرح کی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ لبنان‘ اسرائیل‘ عراق اور اردن کے ہمراہ ترکی بھی شام کا ایک ہمسایہ ملک ہے۔ دونوں کے درمیان 827 کلومیٹر لمبی سرحد ہے‘ جسے پار کرکے گزشتہ سات برسوں میں 25 لاکھ کے قریب شامی باشندے ترکی میں پناہ لے چکے ہیں۔ ویسے تو شام کی خانہ جنگی سے مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ متاثر ہوا ہے‘ لیکن عسکری‘ انسانی اور اقتصادی لحاظ سے اس کا سب سے برا اثر ترکی پر پڑا ہے۔ اس وقت شام میں جنگ کی تباہ کاریوں سے بچ کر بھاگ جانے والے شامی باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد ترکی میں مقیم ہے اور نہ صرف اقتصادی لحاظ سے ان کا قیام ترکی کیلئے ایک بوجھ ہے بلکہ اس کی سلامتی کیلئے ایک شدید خطرہ بھی ہے‘ کیونکہ ان مہاجرین کی صفوں میں دہشت گرد بھی گھسے ہوئے ہیں‘ جن کی طرف سے ترکی کے شہروں کو نشانہ بنانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ ترکی کو اس سے پہلے شام میں داعش کی بڑھتی ہوئی قوت سے خطرہ تھا‘اور اسی خطرے کو ختم کرنے کیلئے ترکی نے اگست 2016ء میں بھی شام میں فوجیں داخل کی تھیں۔ ان فوجوں نے داعش کے علاوہ امریکہ کی سرپرستی میں قائم شامی کرد ملیشیا کے ٹھکانوں پر بھی بمباری کی تھی۔ ترکی کا یہ ملٹری آپریشن‘ جس میں زمینی فوج کے علاوہ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کو بھی استعمال کیا گیا تھا‘ اگلے سال یعنی مارچ 2017ء تک جاری رہا۔ اس آپریشن کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس میں شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی تھی۔
حالیہ آپریشن میں بھی دور مار توپوں‘ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تین دن کی کارروائی میں کرد ملیشیا کے جنگجوئوں کے علاوہ شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بیشتر شہریوں کی ہلاکت ترکی کے ہوائی حملوں کی وجہ سے ہوئی۔ موجودہ آپریشن کے بارے میں ترکی کا اعلان یہ ہے کہ یہ اس وقت تک جاری رہے گا‘ جب تک کرد ملیشیا کے خلاف اپنے اہداف حاصل نہیں کر لئے جاتے۔ ترکی کے اس فوجی آپریشن سے نہ صرف شام کی سرزمین پر ایک اور جنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور ''داعش‘‘ کی شکست سے ملک میں امن کی جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں‘ وہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ترکی اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے درمیان کشیدگی بھی جنم لے رہی ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے ترکی کے فوجی آپریشن سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سے شام میں امن کے قیام کیلئے کی جانے والی کوششوں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو نقصان پہنچے گا۔ فرانس نے صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کا مطالبہ کر دیا ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترکی کے اس فوجی آپریشن سے شام میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے اور شام کے دیگر ہمسایہ ممالک کو‘ جن میں اسرائیل بھی شامل ہے‘ شام کی خانہ جنگی میں کودنے کا بہانہ میسر آ سکتا ہے لیکن ترکی کیلئے شامی سرحد کے 30 ہزار مسلح جنگجوئوں کی موجودگی ایک ایسا خطرہ ہے‘ جسے ترک حکومت کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ترکی کو ڈر ہے کہ شامی کردوں کا یہ مسلح لشکر ترک کردوں کی حمایت میں ترکی کے خلاف مسلح کارروائیاں کر سکتا ہے‘ اور اس کا مقصد نہ صرف ترکی بلکہ عراق‘ شام اور ایران کے ترک علاقوں پر مشتمل ایک نئی اور آزاد مملکت کا قیام ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو امریکہ کی طرف سے شام میں ایک کرد انکلیو (Enclave) کے قیام کا مقصد دراصل مشرق وسطیٰ کے مزید حصے بخرے کرکے وہاں اسرائیل کے بعد ایک اور امریکہ نواز ریاست کے قیام کی کوشش ہے‘ تاکہ اسے ایک اڈے کے طور پر استعمال کرکے امریکہ اور اسرائیل کی مخالف قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ گزشتہ سال ستمبر میں عراقی کردوں نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے عراق سے علیحدگی اور اپنی ایک آزاد ریاست کے حق میں جو فیصلہ دیا تھا‘ وہ بھی اسی پلان کا حصہ تھا لیکن روس اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک شام اور عراق کے مزید ٹکڑے کرنے اور ایک آزاد کردستان کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں ایران بھی شامل ہے‘ جس نے اس ریفرنڈم کو مسترد کرتے ہوئے عراق کی سالمیت کی حمایت کی ہے۔ شام میں ایک کرد انکلیو کے قیام کے پیچھے امریکی ہاتھ سے ان خدشات اور شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے کو ایک مستقل بحران سے دوچار رکھنا چاہتا ہے‘ کیونکہ یہ صورتحال امریکی اور اسرائیلی مفادات کے حق میں ہے اور یہ وہ حکمت عملی ہے‘ جسے مغربی ممالک پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے اب تک استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم میں مشرقِ وسطیٰ میں سلطنتِ عثمانیہ کے کچھ علاقوں کو چھین کر برطانیہ اور فرانس نے آپس میں بندر بانٹ کر لی تھی۔ اس طرح فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی راہ ہموار کی گئی اور شام‘ عراق اور اردن کو لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ سسٹم کے تحت اپنے کنٹرول میں رکھ کر‘ ان ممالک کا استحصال کیا جاتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس اور برطانیہ کی جگہ لے کر امریکہ نے پہلے اسرائیل کی یہودی ریاست کو قائم کیا اور پھر دفاعی معاہدوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو آپس میں دست و گریبان کرتا رہا۔ امریکہ اب بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی کا مرکزی ہدف اسرائیل کی بقا کا دفاع ہے کیونکہ اسرائیل کی یہودی ریاست خطے میں امریکی مفادات کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ شام اور عراق امریکہ کے اس لئے نشانے پر ہیں کہ ان میں اسرائیل کے توسیعی عزائم کو ناکام بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور ان دونوں ملکوں نے مصر اور اردن کے برعکس فلسطین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اسی لئے شام اکثر اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتا رہتا ہے اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کا حملہ اسی مقصد کی تکمیل کیلئے کیا گیا تھا۔ شام میں ایک کرد انکلیو قائم کرکے اور عراق میں کردوں کی علیحدگی کی حمایت کرکے امریکہ ان دونوں ممالک کو اس لئے کمزور کرنا چاہتا ہے کہ یہ ایران کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ امریکی سٹریٹیجک تھنکرز اور پالیسی ساز حلقے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کیلئے بڑھتی ہوئی خیرسگالی سے خائف ہیں اور امریکہ کے اصل عزائم پر پردہ ڈالتے ہوئے‘ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران قدیم ایرانی سلطنت کو از سر نو زندہ کرکے نہ صرف خلیج فارس بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے‘ حالانکہ 1979ء کے انقلاب سے اب تک ایران نے اپنے کسی ہمسایہ ملک کے خلاف نہ کوئی جارحانہ کارروائی کی اور نہ ہی اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ دراصل یہ ایران میں جمہوری نظام کے تحت سیاسی استحکام ہے‘ جو امریکہ اور علاقے میں اس کے اتحادیوں کو کھٹکتا ہے اور جسے سبوتاژ کرنے کیلئے امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں انتہاپسند اور علیحدگی پسند قوتوں کی پشت پناہی کرکے اسے مستقل بنیادوں پر عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔