"DRA" (space) message & send to 7575

جمہوری عمل کا تسلسل

سیاست اور جنگ دو ایسے شعبے ہیں جن کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل کام ہے۔ پاکستان کے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ابھی پانچ چھ ماہ کا عرصہ پڑا ہے، اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے سینیٹ کی آدھی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد یہ اُمید بندھی ہے کہ پارلیمانی انتخابات بھی وقت پر ہوں گے۔ کیونکہ ملک میں ایک عرصہ سے یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ سینیٹ کے انتخابات کا راستہ روک دیا جائے گا اور اس کے لیے کسی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا بہانہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بلوچستان اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اگرچہ آئین کے تحت وزیراعلیٰ کے مشورے پر صوبائی گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا جو اختیار حاصل ہے وہ اب بھی برقرار ہے لیکن انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ہر وزیراعلیٰ ایسا کرنے سے پہلے دو بار نہیں بلکہ کئی بار سوچے گا کیونکہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد اسمبلی کو تحلیل کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور اگر کوئی وزیراعلیٰ ایسا اقدام کرتا ہے تو اسے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے تین مارچ کو سینیٹ کی خالی نشستوں پر انتخابات کے اعلان پر اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے انتخابات کو رکوانے کی جو کوششیں کی جا رہی تھیں وہ دم توڑ گئی ہیں تو یہ غلط نہیں ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس اعلان کے بعد پارلمیانی انتخابات بھی بروقت ہونے کی امید کو تقویت حاصل ہوئی ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہو گا۔ 
اگر سینیٹ کے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوتے ہیں جن کے بارے میں اب وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وقت پر ہی ہوں گے اور پارلیمانی انتخابات میں بھی کوئی تاخیر نہیں ہوتی تو یہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے ایک نیک شگون ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی۔ 2013ء کے بعد یہ دوسرا موقع ہو گا کہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابی عمل کے ذریعے دوسری حکومت کے لیے جگہ خالی کررہی ہے ۔اگر پاکستان میں یہ عمل اسی طریقے سے جاری رہا اور دوچار انتخابات وقت پر ہوتے رہے تو ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی پاکستان میں عوام کے ووٹوں کے ذریعے حکومتی تبدیلی کی ایسی روایت چل نکلے گی جو اب تک ہمارے وطن میں ناپید تھی۔ حالانکہ یہ ملک جمہوری اور پرامن جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا اور اس کے عوام کی جمہوریت کے لیے کمٹمنٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،اس کا انہوں نے متعدد مواقع پر آمرانہ حکومتوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں چلا کر ثبوت دیا ہے۔ 
تین مارچ کو سینیٹ کے انتخابات اور ان کے بعد موسم گرما میں پارلیمانی انتخابات کے بروقت انعقاد اور پرامن انتقال اقتدار سے ملک میں نہ صرف جمہوریت کو استحکام حاصل ہو گا بلکہ ایسی غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی جو جمہوریت کو بدنام کرنے، اس پر عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچانے اور عوام کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے ہمہ وقت موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں اب بھی سیاسی حالات غیر یقینی کی صورتحال سے گزر رہے ہیں انتخابات کو سبوتاژ کرنے یا انہیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرانے کی کوششوں میں مصروف عناصر نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے نہیں کئے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی ہار نہیں مانی مگر لگتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی کو اب کوئی پٹری سے نیچے نہیں اتار سکتا۔ اس کے لیے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں جس طرح سرتوڑ کوششیں کی گئیں وہ سب کے سامنے ہیں لیکن پہلے کی طرح اب بھی ان کوششوں کی کامیابی کا امکان کم ہے۔ جمہوری عمل کے راستے میں رکاوٹیں ہٹانے اور اس کے تسلسل کو یقینی بنانے میں بہت سے محرکات نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن اس میں فیصلہ کن کردار خود عوام کا ہے جنہوں نے منفی اور غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ نہ دے کر جمہوریت سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا اور آمرانہ ذہن کے حامل عناصر کی حوصلہ شکنی کی۔ گزشتہ یعنی 2013ء کے انتخابات کے موقع پر بھی عوام کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی اس کے لیے دہشت گردی کا حربہ استعمال کیا گیا مگر عوام نے بے خوف و خطر پولنگ سٹیشنوں پر ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈال کر جمہوریت کے حق میں فیصلہ دیا آئندہ یعنی 2018ء کے پارلیمانی انتخابات کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیے ایک طرف قبل ازوقت انتخابات کا نعرہ بلند کیا گیا اور سینیٹ کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک‘ دو صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کی افواہیں پھیلائی گئیں لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے لیے جہاں پاکستان کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں وہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جن سیاسی پارٹیوں نے قبل ازوقت انتخابات کی مخالفت کی‘ صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے سے انکار کیا‘ جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنے کی سازش میں شریک ہونے سے انکار کیا ‘ انتخابات کے بروقت انعقاداور اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے پر اصرار کیا وہ بھی مبارکباد کی مستحق ہیں اور جمہوری عمل کے تسلسل کا ان کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں عوام پہلے کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہیں اور اس بات کے قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ ملک کی بقا، اس کا استحکام اور ترقی جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوری عمل کے تسلسل میں مضمر ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ باہمی اختلافات سے قطع نظر پاکستان کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے مارشل لاء کی مخالفت کی اور جمہوریت کے استحکام کی خاطر جمہوری عمل کے تسلسل کی حمایت کی۔ انتخابات کے بروقت انعقاد پر اصرار کیا اور اسمبلیاں توڑنے کی مخالفت کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت پسند رویہ دکھانے والی سیاسی پارٹیوں میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہیں جو ماضی قریب اور ماضی بعید میں فوجی آمروں کے ساتھ شریک ِاقتدار رہ چکی ہیں یا ان کی نوازشوں سے لطف اٹھا چکی ہیں اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی پارٹیاں ایک ارتقائی دور سے گزر کر سیاسی بالغ نظری کی ایک اعلیٰ سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ جمہوری عمل کے تسلسل کو ممکن بنانے میں پارلیمنٹ کے اہم کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس نے الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے اور انتخابی قوانین میں اصلاحات لانے کے عمل کو مکمل کر کے جمہوریت کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اگرچہ گزشتہ ایک دہائی اور خصوصاً گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں پارلیمنٹ کو جس دشنام طرازی کا نشانہ بنایا گیا س کی مثال نہیں ملتی اس پارلیمنٹ کو چوروں‘ ڈاکوئوں‘ لٹیروں اور بدعنوان عناصر کا ٹولہ کہا گیا اور آخر میں کچھ لوگوں نے اس پر لعنت بھیج کر اس کی بے توقیری کی کوشش کی لیکن 2008ء سے اب تک پارلیمنٹ نے پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے جو قانون سازی کی ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس طرح خوش قسمتی سے الیکشن کمیشن کی باگ ڈور قابل‘ محنتی اور دیانتدار اور جرأت مند افراد کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے جمہوری عمل کے راستے میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کے درمیان تعاون اور دونوں اداروں کی مشترکہ کوششوں سے انتخابی قوانین کی اصلاح اور حلقہ بندیوں کا بل پاس ہوا اور کمیشن نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد جس سرعت کے ساتھ ان پر عملدرآمد کا آغاز کیا اس نے بھی انتخابات کے بروقت انعقاد اور جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں