"DRA" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے انتخابات اور ہارس ٹریڈنگ کے خدشات

آئندہ ماہ سینیٹ کی خالی ہونے والی 52 نشستوں کے لئے امیدواروں کی نامزدگیاں وصول کرنے کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد اب 3 مارچ کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے انتخابات کے انعقاد میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ پاکستان کے جمہوری سفر میں یہ ایک اہم اور خوش آئند پیش رفت ہے‘ کیونکہ کچھ عرصہ پیشتر تک ایسے خدشات کا برملا اظہار کیا جا رہا تھا کہ مارچ میں سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات کی نوبت نہیں آئے گی۔ گزشتہ ماہ جب بلوچستان میں وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خلاف خود ان کی پارٹی کی حمایت سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو ان خدشات کو مزید تقویت ملی۔ بلوچستان میں اس سیاسی تبدیلی کو نئے وزیراعلیٰ کے تحت صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا تھا تاکہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کو روکا جا سکے‘ لیکن صوبہ بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کے آنے سے اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے بلوچستان اسمبلی کی تحلیل کے بعد سندھ اسمبلی توڑنے سے انکار کر دیا تھا‘ لیکن بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرنے کے باوجود کے پی میں ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک اسمبلی کو تحلیل کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔ اس طرح چار میں سے تین صوبائی اسمبلیوں کو توڑ کر نہ صرف مارچ کے سینیٹ کے انتخابات بلکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا‘ وہ کامیاب نہیں ہوا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کے زاویۂ نگاہ سے ملکی سیاست کا تجزیہ کرنے والے حلقوں کے مطابق اس منصوبے کا مقصد مسلم لیگ (ن) کو ایوان بالا میں اکثریت کے حصول سے محروم رکھنا تھا۔ قومی اسمبلی میں تو اس پارٹی کو پہلے ہی اکثریت حاصل ہے‘ چنانچہ سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کر کے یہ پارٹی آئین میں تبدیلی کے ذریعے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی آرٹیکل 62-1(F) کے تحت نااہلیت ختم کر سکتی تھی؛ تاہم سینیٹ کی نشستوں کے لئے پولنگ قریب آنے پر جس طرح ہارس ٹریڈنگ کی باتیں ہو رہی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں انتخابی عمل میں پیسے کا استعمال کس قدر سرایت کر چکا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا یہ بیان کہ انہیں سینیٹ کی ایک سیٹ الاٹ کرنے کے عوض 40 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی ہے‘ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اگر عمران خان کو ایسی پیشکش کی جا سکتی ہے تو باقی پارٹیوں کے سربراہان کا کیا حال ہو گا؟ اس ضمن میں پہلے ہی اس نوع کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات قریب آتے ہی تجوریوں کے منہ کھول دئیے گئے ہیں۔ سینیٹ کی ایک نشست کے لئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی پیشکش کی جا رہی ہے اور یہ کہ ارکان اسمبلی کے ووٹوں کے لئے اوپن بولی شروع ہو گئی ہے۔ بلوچستان کے بارے میں یقینی طور پر کہا جا رہا ہے کہ وہاں ہارس ٹریڈنگ ہو گی۔ وہاں حکومت کی تبدیلی کو اس سلسلے میں ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جو مقصد حاصل کیا جانا تھا‘ یعنی مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں اکثریت سے محروم کرنا‘ بلوچستان اسمبلی کو توڑ کر ممکن نہ ہو سکا‘ وہ اب ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ اور اس کے لئے بلوچستان سے آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو کھڑا کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے اس دعوے کے بعد کہ ان کی پارٹی بلوچستان سے ایک دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی‘ ہارس ٹریڈنگ کی افواہوں کو اور بھی ہوا ملی ہے۔ حکمران پاکستان مسلم لیگ کے رہنما تو زرداری صاحب پر ہارس ٹریڈنگ کا کھلے عام الزام عائد کر رہے ہیں‘ بلکہ پارٹی کے بعض اہم اور سرکردہ رہنمائوں کے مطابق سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بھی آصف علی زرداری کا ہاتھ تھا۔
بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا کوئی رکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود سابق صدر زرداری کی طرف سے سینیٹ کی نشست حاصل کرنے کا دعویٰ یقینا ناقابل فہم ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ مشن‘ کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنے سے حاصل کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان میں اب بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان اکثریت میں ہیں‘ لیکن صوبے سے جن 28 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں‘ ان میں سے 12 امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ارکانِ صوبائی اسمبلی اپنی پارٹی کے ڈسپلن کے تابع رہتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ لینے کی بجائے اپنی مرضی کے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ''ن‘‘ لیگ نے ہارس ٹریڈنگ کے خلاف عدالت میں جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق مسلم لیگ (ن) ہارس ٹریڈنگ کے خلاف جہاد کرے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ووٹ خرید کر سینیٹ میں پہنچنے والوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔ بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ کے قوی امکانات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ایسی پارٹی‘ جس کا صوبائی اسمبلی میں ایک بھی رکن نہ ہو‘ کیسے صوبے سے سینیٹ کی نشست حاصل کر سکتی ہے؟ یہ صرف پیسے کے ذریعے ہی ممکن ہے اور ہمیں اس کو مسترد کرنا ہو گا، اس کے خلاف جہاد کرنا ہو گا اور ہم ایسے لوگوں کو عوامی عدالت میں پیش کریں گے‘‘۔ لیکن ایسے لوگوں کا پتا کیسے چلے گا‘ کیونکہ آج تک کسی سیاسی پارٹی یا کامیاب امیدوار نے ہارس ٹریڈنگ کا اعتراف نہیں کیا۔ البتہ بلوچستان سے سینیٹ کے لئے امیدواروں کے چنائو سے ہارس ٹریڈنگ کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے‘ کیونکہ 12 آزاد امیدواروں کے علاوہ جن دیگر 16 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں‘ ان میں سے کسی ایک کا بھی پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں‘ بلکہ جن پارٹیوں نے اپنے امیدوار نامزد کئے ہیں‘ ان میں مسلم لیگ (ن)‘ نیشنل پارٹی‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق)‘ جس کے موجودہ اسمبلی میں 5 ارکان ہیں اور نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بھی اسی پارٹی سے ہے‘ کی طرف سے کوئی امیدوار سینیٹ کی نشست کے لئے نامزد نہیں کیا گیا۔ اس طرح مارچ میں سینیٹ کی خالی نشستوں پر ہونے والے انتخابات ایک دلچسپ بلکہ پراسرار پہلو اختیار کر چکے ہیں۔
اگر ایک ایسی پارٹی‘ جس نے باقاعدہ طور پر کوئی بھی امیدوار اپنی طرف سے کھڑا نہیں کیا اور اس کے باوجود سینیٹ میں بلوچستان سے دو‘ ایک نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ واقعی ایک حیران کن بات ہو گی اور خیال ظاہر کیا جائے گا کہ اس کے پیچھے ہارس ٹریڈنگ کا ہاتھ ہے، لیکن ہارس ٹریڈنگ کے خدشات صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہیں۔ سندھ میں ایم کیو ایم کی صفوں کے اندر خلفشار نے بھی ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ وہاں پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی میں اپنے ارکان کی تعداد کے تناسب سے زائد نشستیں حاصل کرے۔ اسی طرح کے پی کے بارے میں بھی ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جن کے مطابق بعض سیاسی پارٹیاں اسمبلی میں اپنے ارکان کی تعداد کی بنیاد پر حاصل ہونے والی نشستوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر ایسا ہوا تو یہ ہارس ٹریڈنگ کا پکا ثبوت ہو گا۔ وزیراعظم نے اگرچہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے اور وہ ان تمام ارکان کو بے نقاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جو پیسے کے زور پر سینیٹ ہال میں داخل ہوں گے‘ لیکن پاکستان میں جمہوری عمل اپنے ارتقا کے جس مرحلے سے گزر رہا ہے‘ اس پر اس قسم کے غیر آئینی‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقوں کو مکمل طور پر بلاک نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ہارس ٹریڈنگ کی خود سیاسی پارٹیوں کی طرف سے جس طرح کھل کر مذمت کی جا رہی ہے اور اس کے ذریعے نشستیں حاصل کرنے والوں کو شرمندہ اور بے نقاب کرنے کا جو مصمم ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے‘ اس سے اس پریکٹس کی یقینا حوصلہ شکنی ہو گی اور آئندہ انتخابات میں اس کے استعمال میں یقینا کمی واقع ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں