اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے شکایت کی کہ سات برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں‘ بلکہ اسے رول بیک کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جسے پارلیمنٹ نے 2010 میں متفقہ طور پر منظور کیا تھا‘ پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک انتہائی اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا مقصد ضیاالحق اور پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے آئین میں کی گئی آمرانہ اور غیر جمہوری ترامیم کو حذف کر کے اسے اس کی اصل صورت میں بحال کرنا تھا؛ چنانچہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایک 27 رکنی جائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے شب و روز کی محنت کے بعد اس حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کیں۔
ان سفارشات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصے کا تعلق پارلیمنٹ کے ان اختیارات سے ہے‘ جو ضیاالحق کی آٹھویں اور مشرف کی سترہویں آئینی ترامیم کے تحت سربراہِ مملکت یعنی صدر کو تفویض کر دئیے گئے تھے۔ ترمیم کے ذریعے ان اختیارات کو واپس پارلیمنٹ کے سپرد کرنا مقصود تھا؛ چنانچہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور ریاست کے بعض اہم عہدوں پر‘ مثلاً تینوں مسلح افواج کے سربراہان‘ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی تعیناتی کے اختیارات صدر سے وزیر اعظم کو ٹرانسفر کر دئیے گئے۔ سفارشات کا دوسرا حصہ صوبائی خود مختاری سے متعلق تھا‘ جو پاکستان کی تاریخ میں ملک کا نمبر ایک مسئلہ رہا ہے۔ 1956 کے آئین میں جزوی طور پر اور 1973 کے آئین کے تحت کافی حد تک اس مسئلے کو حل کر دیا گیا تھا‘ لیکن ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاالحق اور ان کے بعد پرویز مشرف کے فوجی ادوار میں صوبائی خود مختاری کے نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی تھی‘ اور ملک کو ایک وفاقی کی بجائے وحدانی ریاست کے طور پر چلایا جاتا رہا تھا۔ آج سے پندرہ برس پہلے جب جمہوریت بحال ہوئی اور عوام کے نمائندے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے‘ تو عوامی دبائو کے تحت 1973 کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا عمل شروع ہوا‘ جس کے تحت شروع ہی سے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی گئی تھی‘ اور آئندہ کے لئے اسے مزید وسیع کرنے کے وعدے کئے گئے تھے۔ چنانچہ 40 برس پہلے پاکستانی عوام سے 1973 کے آئین کے بانیوں نے جو وعدے کئے تھے‘ انہیں 2010 میں اٹھارہوں ترمیم کے ذریعے پورا کیا گیا۔
اس ترمیم کے تحت 16 سے زائد محکمے وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں کو منتقل کئے گئے۔ کنکرنٹ لسٹ (Concurrent List) ختم کر دی گئی اور اس میں شامل محکموں اور اختیارات کو صوبوں کے حوالے کر دیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قدرتی وسائل مثلاً تیل اور گیس کی ملکیت میں ان صوبوں کو‘ جہاں سے تیل اور گیس کی پیداوار ہو رہی تھی‘ وفاق کے برابر حصہ دیا گیا۔ جن محکموں کو وفاق کے کنٹرول سے صوبوں کے سپرد کیا گیا‘ ان میں تعلیم اور صحت سرفہرست ہیں۔ اسی طرح تیل اور گیس کی پیداوار‘ مارکیٹنگ اور نرخ متعین کرنے والے اداروں کو بھی صوبائی حکومتوں کی تحویل میں دے دیا گیا۔ امید تھی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حتمی طور پر حل ہو جائے گا‘ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ترمیم پر عمل درآمد کی سست رفتار ہے۔ وفاق سے صوبوں کو مختلف محکمے منتقل کرتے وقت وفاقی حکومت نے صوبوں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیا لیکن ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جو اختیارات چاہئیں اور جو صلاحیت درکار ہے‘ وہ صوبوں کو فراہم نہیں کی گئی۔ بلکہ تعلیم اور صحت کے دو بڑے شعبوں میں بعض امور پر کنٹرول ایک طرح سے ابھی تک مرکز کے ہاتھ میں ہے اور انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے مرکز کے زیر کنٹرول رکھنے کے حق میں دلیلیں دی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال صرف تعلیم اور صحت کے شعبوں تک ہی محدود نہیں۔ امن و امان کے قیام اور تیل و گیس کی پیداوار کی تقسیم کرنے والی کارپوریشنوں پر بھی صوبوں کے کنٹرول پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اٹھارہویں ترمیم کی واضح شقوں کے باوجود کوئی کراچی سے ان کمپنیوں کے ہیڈ آفسز کو صوبائی دارالحکومتوں میں شفت کرنے پر تیار نہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک امن و امان کے قیام کے بارے میں صوبوں کی ذمہ داریاں‘ اور وفاقی حکومت کی طرف سے بے اعتنائی والا رویہ ہے۔ امن و امان کے قیام کے لئے صوبوں کے پاس صرف پولیس ہے‘ لیکن اس میں بھی صوبوں کو فری ہینڈ نہیں دیا جاتا۔ اگرچہ پولیس کے نچلے درجے کے ملازمین یعنی کانسٹیبل کو بھرتی کرنے کا اختیار صوبوں کے ہاتھ میں ہے‘ لیکن پولیس فورس کی کمانڈ اور اعلیٰ سطح پر فیصلے کرنے کا اختیار ایسے پولیس افسروں کو حاصل ہے‘ جن کا تعلق سنٹرل کیڈر سے ہے۔ یہ سوال اٹھانا بلا جواز نہ ہو گا کہ پولیس اور لا اینڈ آرڈر کا محکمہ مکمل طور پر صوبائی دائرہ اختیار میں آنے کے بعد پاکستان پولیس سروس (PSP) کی موجودگی کا کیا جواز ہے؟ خاص طور پر جبکہ مرکز کے پاس ایف آئی اے‘ نیب‘ ایف سی اور دیگر وفاقی تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں کہنے کو تو صوبوں کو مکمل داخلی خود مختاری حاصل ہے‘ لیکن ہر صوبے میں انتظامیہ کی اہم پوسٹوں پر وفاقی سروس سے تعلق رکھنے والے افسر بیٹھے ہوتے ہیں۔ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے پھیلنے سے صوبوں کی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے‘ لیکن صوبوں کے پاس اس کے خلاف موثر اقدامات کیلئے لازمی طور پر درکار وسائل نہیں ہیں۔ یہ مرکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبوں کو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے لانے کی بجائے ان کی صلاحیت اور استعدادِ کار بڑھانے کیلئے اقدامات کرے‘ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم ڈرافٹ کرتے وقت اس پہلو کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ بلکہ اختیارات کی نیچے کی طرف منتقلی سے صوبوں کو مالی لحاظ سے جو فائدہ پہنچ سکتا ہے‘ انہیں اس سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
1947 سے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو صحیح معنوں میں وفاقی اور جمہوری بنانے کی متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم اس کی تازہ مثال ترین مثال ہے۔ پھر آخر کیوں جمہوریت ڈی ریل ہونے کے خطرے سے دوچار رہتی ہے اور صوبوں کو مرکز سے آئین کے تحت دئیے گئے اختیارات میں مداخلت اور دبائو کی شکایت رہتی ہے۔ اگر ہم بھارت اور پاکستان کے آئین کا موازنہ کریں تو مؤخرالذکر کا آئین اول الذکر کے آئین سے زیادہ جمہوری اور زیادہ وفاقی ہے‘ پھر کیوں رضا ربانی جیسی اہم اور ذمہ دار شخصیتوں کو صوبائی خود مختاری پر مرکز سے شکایت کرنا پڑتی ہے؟ میرے ذاتی خیال میں اس کی وجہ ایک مائنڈ سیٹ ہے‘ جو پاکستان کے مقتدر حلقوں میں ابھی تک موجود ہے۔ حالانکہ 1947 سے اب تک پنجاب اور سندھ کے دریائوں کے پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے‘ پھر بھی یہ مائنڈ سیٹ واش ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس مائنڈ سیٹ کے مطابق صوبے ابھی تک نابالغ اور شیر خوار بچوں کی طرح ہیں‘ جنہیں انگلی پکڑ کر چلانا پڑتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کے مالک لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ صوبے اب بالغ ہو چکے ہیں اور وہ اپنے راستے پر چلنے بلکہ دوڑنے کے قابل ہیں۔ ان کے راستے میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہئیں بلکہ اگر کوئی رکاوٹ ہے تو اسے دور کر دینا چاہئے‘ تاکہ قوم ایک ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ صوبائی خود مختاری ہمارے سیاسی نظام کا ایک بہت اہم اور لازمی حصہ ہے۔ اس کے بغیر پاکستانی سیاست کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا‘ کیونکہ اس کے حصول کے پیچھے قوم کی ایک طویل جدوجہد ہے‘ اور اپنی جدوجہد سے حاصل کردہ کامیابی کو عوام کبھی رائیگاں جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ پاکستان میں اب بھی ایسی طاقتیں موجود ہیں جو جمہوریت اور صوبائی خود مختاری پر حملہ کرنے کیلئے ہر وقت تاک میں رہتی ہیں‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔