پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی منحرف رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے ایک الگ سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس موقعہ پر انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت نافذ کرنے کے حق میں مہم چلائے گی۔ عائشہ گلالئی ملک کی واحد سیاسی شخصیت نہیں ہیں‘ جنہوں نے اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک میں صدارتی نظام کی حمایت کی ہے۔ ان سے پہلے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنی ''پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک اینڈ کرٹک پارٹی‘‘ کے منشور میں صدارتی نظام کے قیام کو شامل کر رکھا ہے۔ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی پارلیمانی نظامِ حکومت کی بجائے پاکستان میں صدارتی نظام کے خواہاں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی صدارتی نظام کے حامی ملک میں موجود ہیں اور گاہے بگاہے بیانات یا تحریروں کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان شخصیات میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس‘ ریٹائرڈ جنرل اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمٰن بھی صدارتی نظام کے پرجوش حامی ہیں اور گزشتہ چند برسوں میں انہوں نے اس بارے اپنے موقف کو متعدد مضامین کے ذریعے کھل کر بیان کیا ہے۔ ان کی رائے میں پاکستان کے تمام مسائل‘ جن میں سیاسی عدم استحکام اور پس ماندگی سر فہرست ہیں‘ کی جڑ پارلیمانی نظام ہے اور جب تک اس نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ نہیں کیا جاتا‘ پاکستان میں نہ تو گورننس کے مسائل حل ہوں گے‘ نہ ملک ترقی کرے گا اور نہ ہی ملک سیاسی طور پر مستحکم ہو گا‘ لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بیان میں پاکستان کے لئے صدارتی نظام کو مسترد کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ ملک کے لئے صدارتی نظام نقصان کا باعث ثابت ہو گا اور ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی اور صدارتی دونوں نظام جمہوری ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں صدارتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے اور پارلیمانی نظام سے بھی بہت سی قوتیں مطمئن ہیں۔ پاکستان میں صدارتی نظام کے حامیوں کے خلوص نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ اس کی حمایت کرتے ہیں تو ایسا کرنے کے لئے ان کے پاس ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں پارلیمانی نظام کو عوام کی متفقہ حمایت حاصل ہے اور جب کبھی ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی‘ وہ ناکام ہو گئی کیونکہ ایسی کوشش کو عوام نے قبول نہیں کیا۔ اس کی مثال ایوب خان کا 1962 کا آئین ہے‘ جس کے تحت جون 1962 سے مارچ 1969 تک پاکستان میں صدارتی نظام حکومت رائج رہا۔ ایوب خان کے بعد پاکستان کے تیسرے اور چوتھے فوجی حکمران یعنی جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف نے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین کو عملی طور پر صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن ہم نے دیکھا کہ جب جمہوریت بحال ہوئی تو عوام کے منتخب نمائندوں نے موقعہ ملتے ہی ان ترامیم کو حذف کر دیا۔ 1997 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران میں آٹھویں ترمیم کو ختم کر کے 1973 کے آئین کے پارلیمانی کریکٹر کو بحال کر دیا گیا اور 2010 میں پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں پارلیمنٹ نے سترہویں ترمیم کو حذف کر کے کئی اختیارات کو واپس لے لیا۔ پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو عوام اسے رد کر دیں گے۔ اس کے باوجود ملک میں مختلف اطراف سے صدارتی نظام حکومت کے حق میں آوازیں کیوں اٹھتی ہیں؟ اور یہ کہ پاکستان کیلئے پارلیمانی نظام ہی کیوں بہترین اور سود مند نظام حکومت ہے؟
ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں تاریخ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس وقت ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں اس بارے میں کیا رجحانات ہیں۔ یہ سچ ہے کہ افغانستان کو چھوڑ کر پورے جنوبی ایشیا میں موجود سیاسی نظام کی بنیاد انگریزی نوآبادیاتی دور میں رکھی گئی لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں پارلیمانی نظام زبردستی مسلط کیا تھا‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام ایک طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے‘ جس میں انگریزوں کی طرف سے نافذ کی جانے والی سیاسی اور آئینی اصلاحات کے علاوہ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں‘ جن میں کانگریس اور مسلم لیگ بھی شامل تھیں‘ کی جدوجہد نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس جدوجہد میں کانگریس اور مسلم لیگ بہت سے معاملات میں اختلاف رکھنے کے باوجود انگریز حکومت سے یہ مطالبہ منوانے پر متفق تھیں کہ قانون ساز اسمبلیوں کے نمائندہ کردار کو مضبوط بنایا جائے اور صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دئیے جائیں۔ اس طرح وفاقی پارلیمانی نظام کا ایک باقاعدہ ڈھانچہ ابھرنا شروع ہو گیا‘ جس کی مثال 1935 کا ایکٹ ہے‘ جسے پاکستان اور بھارت دونوں نے آزادی کے بعد عبوری آئین کے طور پر اختیار کیا۔ آزادی کے بعد بھی ارتقا کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم اس کی ایک مثال ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں صرف پاکستان اور بھارت میں ہی پارلیمانی نظام رائج نہیں بلکہ بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور نیپال
میں بھی پارلیمانی نظامِ حکومت قائم ہے۔ جن ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے‘ یعنی سری لنکا اور مالدیپ‘ وہاں بھی ایگزیکٹو پریذیڈنسی کی جگہ پارلیمنٹ کو زیادہ بااختیار بنا کر وزیر اعظم کو چیف ایگزیکٹو بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سری لنکا کے موجودہ صدر سری سینا تو ملک میں پارلیمانی نظام کو دوبارہ بحال کرنے کے وعدے پر صدارتی انتخاب جیت کر برسر اقتدار آئے تھے اور مالدیپ میں حالیہ سیاسی واقعات کے بعد صدر کو حاصل غیر معمولی اختیار میں کمی کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں صدر کی موجودگی میں چیف ایگزیکٹو کا الگ عہدہ قائم کر کے ملک میں عملاً پارلیمانی نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جنوبی ایشیا میں پارلیمانی نظام حکومت کے حق میں ایک علاقائی اتفاق رائے (Regional Consensus) ابھر رہا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کے مخصوص سیاسی اور سماجی تناظر میں صدارتی نظام آمرانہ رجحانات کا مظہر ثابت ہوا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس کی دو نمایاں مثالیں ہیں۔ ایوب خان پارلیمانی نظام کے سخت مخالف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام قائم رہا تو پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا‘ لیکن عملاً اس کا اپنا صدارتی نظام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سب سے اہم سبب ثابت ہوا‘ کیونکہ حکومت اور ریاست کے تمام اختیارات صدر کے ہاتھ میں تھے‘ اور صدر ایک مضبوط مرکز کی علامت بن گیا تھا‘ جس کی وجہ سے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔ اور اسی صورت حال نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مغربی پاکستان سے برگشتہ کیا۔ پاکستان کے کیس میں پارلیمانی نظام کی پذیرائی کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ برصغیر کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کو صرف اسی نظام کا عملی تجربہ ہے۔ اس نظام نے ارتقاء کی مختلف منازل طے کرنے کے بعد جو موجودہ مقام حاصل کیا ہے‘ اس میں پاکستانی عوام کی قربانیوں اور جدوجہد کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس لئے وزیر اعظم عباسی نے بالکل درست فرمایا کہ اگر موجودہ پارلیمانی نظام کو غیر مستحکم کر کے صدارتی نظام لانے کی کوشش کی گئی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کیونکہ پارلیمانی نظام پر اتفاق رائے کسی ایک صوبے یا علاقے تک محدود نہیں‘ بلکہ پورے ملک پر محیط ہے۔ اس اتفاق رائے کو کمزور کرنے کا مقصد پورے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔