"DRA" (space) message & send to 7575

عدم برداشت اور تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر

اسے حالات کی ستم ظریفی کہیے یا مکافاتِ عمل کہ پنجاب کے دینی حلقے خصوصاً لاہور کی کچھ درسگاہیں‘ جو ایک زمانے میں میاں محمد نواز شریف کی سیاسی حمایت کا منبع ہوا کرتی تھیں‘ اب مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم کے لئے عدم برداشت اور تشدد کا مظہر بنتی جا رہی ہیں۔ لاہور کی ایک اہم دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں گزشتہ روز جناب میاں محمد نواز شریف ایک تقریب سے خطاب کرنے گئے تھے۔ دورانِ خطاب حاضرین میں سے ایک شخص نے ان پر جوتا پھینکا۔ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ ایسا کرنے میں اس شخص کے ساتھ دو اور اشخاص بھی ملوث تھے۔ ان سب کو باقی حاضرین نے پہلے زد و کوب کیا اور پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ملزمان جامعہ نعیمیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ اگرچہ جامعہ نعیمیہ کے منتظمین اور تقریباً ساری سیاسی پارٹیوں نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے؛ تاہم اس کی سنگینی اور آنے والے وقتوں خصوصاً انتخابات کے قریبی دنوں میں اس کے خطرناک مضمرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس واقعہ کو ان حالات اور واقعات سے الگ تھلگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا‘ جن میں سے پاکستان گزشتہ تقریباً پندرہ برس سے گزر رہا ہے۔ اس دوران میں عدم برداشت اور تشدد کو ناصرف ایک باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروان چڑھایا گیا بلکہ اسے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے مخالفین کے خلاف استعمال بھی کیا گیا۔ اس گھنائونے اور ناقابل معافی جرم کی سب
سے نمایاں مثال پچھلے یعنی 2013ء کے انتخابات سے عین قبل دیکھنے میں آئی جب ملک کی تین اہم سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کو جانے پہچانے دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کی جانب سے خود کش حملوں‘ اغوا اور دوسری دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا‘ تاکہ یہ سیاسی جماعتیں کھل کر اور آزادانہ طور پر اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکیں۔ دہشت گردوں کی اس مہم کا سب سے زیادہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نشانہ بنی۔ پارٹی کے ذرائع کے مطابق اس کے چھ سو کے قریب سیاسی کارکن اور رہنما تشدد کی اس لہر کا نشانہ بنے‘ جن میں پارٹی کے سینئر لیڈر بشیر احمد بلور اور متعدد سابق ارکانِ اسمبلی اور ضلعی سطح کے سیاسی لیڈر شامل تھے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ جس وقت دہشت گرد ان پارٹیوں کو خود کش حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنا رہے تھے‘ ملک کی دیگر تین بڑی سیاسی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی‘ پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن نے ناصرف خاموشی اختیار کئے رکھی بلکہ دہشت گردوں کی پذیرائی کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی مصروف رہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں جب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے حکومت سے مذاکرات کی ہامی بھری تو جن حلقوں کو اس نے اپنا ضامن قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی‘ ان میں عمران خان اور میاں محمد نواز شریف بھی شامل تھے۔ انتخابات کے دوران میں مسلم لیگ ن کے بعض سرکردہ رہنمائوں کا ایسی دینی سیاسی جماعتوں سے اشتراک بھی دیکھنے میں آیا جنہیں اب انتہا پسند کہا جاتا ہے‘ لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ وہ مذہبی جماعتیں‘ جو ایک زمانے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کا پکا حصہ تھیں‘ اب اس کے مقابلے میں کھڑی ہیں۔ لاہور میں این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ کے نام سے دو سیاسی پارٹیوں کا پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار کے مقابلے میں اچانک آ کھڑا ہونا اور گزشتہ سال راولپنڈی میں فیض آباد کے دھرنے‘ دونوں کو بطور مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ نعیمیہ لاہور
میں نواز شریف کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا‘ وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن ‘ جس کی ملک کے سب سے صوبے اور اس کے اپنے گڑھ پنجاب میں مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے‘ کے خلاف پاکستان کی ایک لابی کو استعمال کیا جائے گا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے پاکستان مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے اس کے مقابلے میں آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ ایک الگ اور تفصیلی بحث کا متقاضی موضوع ہے۔ اس وقت جامعہ نعیمیہ میں پیش آنے والے اس واقعہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مذمت کی ہے اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ قومی سیاست میں عدم برداشت اور تشدد کے ان رجحانات کی بھرپور طور پر حوصلہ شکنی کی جائے گی‘ لیکن انتہا پسندی کی اس لہر کو محض اعلانات اور مذمتی بیانات سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لئے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوںاور جمہوریت کی حامی قوتوں کو سول سرچنگ (Soul Searching) کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ آیا اس قسم کے واقعات ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تو نہیں‘ جس کے تحت جمہوری اور عوامی حاکمیت کی حامی سیاسی قوتوں کو آگے بڑھنے سے روکا جا رہا ہے؟ اور کیا بعض سیاسی جماعتیں دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کا حصہ تو نہیں بن رہیں؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں گزشتہ کچھ عرصے سے‘ خصوصاً جب سے جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور کے بعد جمہوریت نے 
اپنی جڑیں پکڑنا شروع کی ہیں‘ سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو ہر قسم کے جرائم مثلاً کرپشن‘ اختیارات کے ناجائز استعمال‘ اقربا نوازی‘ غبن‘ غفلت اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا مرتکب قرار دے کر تسلسل کے ساتھ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں مختلف حلقوں کی جانب سے جو ریمارکس اور بیانات جاری کئے جاتے ہیں‘ ان کا مقصد سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کے خلاف عوامی جذبات ابھارنا ہے۔ جامعہ نعیمیہ کا واقعہ اس کا مظہر ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس کے اردگرد دیگر ممالک بھی انتہا پسندی‘ تشدد اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں‘ ملک کے ذمہ دار اور مقتدر حلقوں‘ جن میں سیاسی پارٹیوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے‘ مخالف سیاسی پارٹیوں اور سیاسی شخصیتوں کو ایسے ریمارکس یا الفاظ کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘ جن کی وجہ سے پبلک میں ان کا امیج خراب ہو۔ ان کی کارکردگی‘ غلطیوں‘ غفلتوں اور نااہلیوں کی بنیاد پر جانچنے کی ذمہ داری عوام پر چھوڑ دینی چاہیے۔ ہر پانچ سال بعد عوام کو عام انتخابات کی شکل میں سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف یا ان کی حمایت میں فیصلہ صادر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ عوام کے اس فیصلے کو حتمی حیثیت حاصل ہے‘ جو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی شک و شبہ یا تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر اس عمل کو بغیر کسی رکاوٹ کے باقاعدگی سے جاری رہنے دیا جائے تو ملک میں انتہا پسندی‘ دہشت گردی‘ عدم برداشت اور تشدد کا استعمال ختم ہو جائے گا‘ کیونکہ جمہوری عمل کے تسلسل اور اس میں حصہ لینے والی جمہوری سیاسی قوتوں کو ٹارگٹ بنانے سے غیر جمہوری‘ انتہا پسندی اور عدم برداشت پر مبنی رویوں کو تقویت ملتی ہے‘ جس سے ناصرف معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا ہے بلکہ ملک کے وجود کو خطرہ بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے اردگرد اس وقت جو حالات ہیں‘ وہ انہی غیر جمہوری اور انتہا پسند عناصر کی بالادستی کی پیداوار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں