پاکستان میں آئین کے مطابق ہر نئے عام انتخابات کے موقع پر مرکز اور صوبوں میں قائم مقام (Caretaker) حکومتیں قائم کی جاتی ہیں اور نئے انتخابات انہی حکومتوں کے زیر نگرانی کرائے جاتے ہیں۔ ان قائم مقام مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ساخت اور تقرری کا طریقہ کار آئین کی دفعات 224 اور 224 اے میں بیان کیا گیا ہے۔ ان دفعات کو حتمی شکل فروری 2012ء میں منظور کی گئی 20ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دی گئی تھی اور گزشتہ یعنی 2013ء کے پارلیمانی انتخابات میں انہی دفعات کے تحت مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق قائم مقام حکومتیں تشکیل دی گئی تھیں‘ جنہوں نے اپنی نگرانی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے تھے۔ اس طریقہ کار کے مطابق مرکز میں وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف باہمی مشاورت سے قائم مقام وزیراعظم کے نام پر اتفاق کرکے سپیکر کو ارسال کرتے ہیں‘ جو مرکز میں قائم مقام وزیراعظم کی تقرری کا اعلان کرتے ہیں۔ صوبوں میں یہ مشاورتی عمل وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے درمیان ہوتا ہے اور قائم مقام وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سابقہ عام انتخابات کے موقع پر قائم مقام سیٹ اَپ کی تشکیل اور تقرری پر کوئی ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا اور معاملہ مرکز میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف اور صوبوں میں وزیراعلیٰ اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان مشاورت سے آگے بڑھا۔ لیکن اگر وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف مرکز اور وزیراعلیٰ اور قائد حزبِ اختلاف صوبوں میں قائم مقام وزیراعظم یا قائم مقام وزیراعلیٰ کے نام پر متفق نہ ہو سکیں تو مسئلے کو حل کرنے کیلئے بھی ان آئینی دفعات میں طریقۂ کار دیا گیا ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق ڈیڈ لاک کی صورت میں مرکز اور صوبوں میں حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے نامزد چار چار ارکان پر مشتمل آٹھ رکنی کمیٹی مرکز میں قائم مقام (نگران) وزیراعظم اور صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر اتفاق کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر یہ کمیٹی یا کمیٹیاں بھی ناکام رہیں تو چیف الیکشن کمیشن دونوں طرف سے نامزد کردہ ناموں میں سے نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کے ناموں کا اعلان کریں گے۔
بظاہر تو طریقہ واضح ہے اور امید رکھنی چاہئے کہ اس کی موجودگی میں کوئی ابہام یا ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہو گا لیکن خدشہ ہے کہ اس دفعہ مرکز میں نگران وزیراعظم اور صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری اتنا آسان کام نہیں ہو گا۔ اس خدشے کی بنیاد وہ بیانات اور مطالبات ہیں‘ جو قومی اسمبلی میں نشستوں کے لحاظ سے تیسری بڑی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید احمد کی طرف سے کئے جا رہے ہیں۔ کافی عرصہ سے عمران خان اصرار کر رہے ہیں کہ نگران حکومتوں کی تشکیل کے عمل کو محض وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان مشاورت تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی آئندہ انتخابات کے لیے نگران سیٹ اپ قبول نہیں کرے گی۔ شیخ رشید احمد تو اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے آئین میں دئیے گئے طریقہ کار کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ نگران حکومتوں کا تقرر وہ خود کریں‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ آئین میں وزیراعظم‘ جسے قائدِ ایوان بھی کہا جاتا ہے‘ اور قائدِ حزب اختلاف کے درمیان مشاورت درج ہے‘ وزیراعظم اور حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا ذکر نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ قائدِ حزب اختلاف وزیراعظم کے سامنے نگران وزیر اعظم کیلئے اپنے نامزد افراد کے نام رکھنے سے پہلے اس مسئلے پر حزب اختلاف میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنمائوں سے مشاورت کرے۔ لیکن یہ مشورہ غیر رسمی ہو گا اور حقیقت میں قائدِ حزبِ اختلاف‘ پارلیمنٹ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ایسا مشورہ لازماً کرتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کیلئے موجودہ قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیراعظم کے سامنے اپنی طرف سے نام رکھنے سے قبل قومی اسمبلی میں حزب ختلاف سے تعلق رکھنے والی دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئین کے مطابق باقاعدہ مشاورت کا عمل صرف وزیراعظم اور قائدِ حزب اختلاف کے درمیان ہو گا۔ اور اگر عمران خان اسے قبول نہیں کریں گے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جہاں تک شیخ رشید احمد کے مطالبے کا تعلق ہے تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کا جواب دے دیا ہے کہ ملک میں نہ تو جوڈیشل اور نہ ہی فوجی مارشل لا کی گنجائش ہے۔ شیخ رشید ایک عرصہ سے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کی آرزو کئے ہوئے ہیں۔ 2014ء کے دھرنے کے دوران بھی ان کا مطالبہ فوجی مارشل لا کا نفاذ تھا۔ اب وہ جوڈیشل مارشل لا کی اپیل کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک نہ تو آئین کی کوئی اہمیت ہے‘ نہ ہی الیکشن کمیشن کی اور نہ ہی پارلیمنٹ کی‘ بلکہ ان سب کو بائی پاس کرتے ہوئے وہ ملک میں مارشل لا کے آرزو مند ہیں۔ کمال بات یہ ہے کہ اتنا کچھ کہنے کے بعد وہ ''اداروں کی تباہی‘‘ کی ذمہ داری نواز شریف اور ان کی پارٹی پر ڈالتے ہیں۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید کے بیان کے جواب میں جو کچھ فرمایا ہے‘ اس کے بعد انہیں ایسی نامعقول باتوں سے باز آ جانا چاہئے اور اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے جمہوری سیاسی عمل کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہئیں۔
جہاں تک انتخابات کے دوران نگران سیٹ اپ کے قیام کا تعلق ہے تو پاکستان دنیا میں غالباً واحد ملک ہے جہاں سٹنگ پرائم منسٹر کی بجائے انتخابات کے دوران ایک غیر جانبدار اور غیر سیاسی شخصیت کو نگران وزیراعظم مقرر کیا جاتا ہے۔ ورنہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پہلے سے مقتدر حکومت کو ہی عارضی اور نگران حکومت کے طور پر جاری رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ نگران وزیراعظم‘ ان کی کابینہ کے ارکان اور ان کے عزیز و اقارب کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی‘ لیکن قانون کی رو سے ایک نگران حکومت کے کیا فرائض ہیں‘ ان کا مینڈیٹ کیا ہو گا اور اسے کون کون سے اختیارات حاصل ہوں گے؟ ان سوالات کے جواب دستیاب نہیں اور بہت سے حلقوں نے نگران حکومت کے بارے میں ان خامیوں اور ابہام کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں اور نگران حکومت کے اختیارات اور مینڈیٹ کے بارے ابہام دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی نگران حکومت کے اختیارات کے باررے میں جو بیان دیا ہے‘ اس کو بھی اسی پیرائے میں دیکھنا چاہئے کیونکہ اس معاملے میں وضاحت کی غیر موجودگی اور نگران حکومت کے مینڈیٹ کو قانونی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی الجھنیں اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران خصوصاً پنجاب میں نگران سیٹ اپ کو جس طرح متنازع بنایا گیا‘ اسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات کی مانیٹرنگ کیلئے پاکستان آنے والے یورپی یونین کے مبصرین کے کمیشن نے انتخابات کے بارے میں اپنی حتمی رپورٹ میں اس سقم کی طرف توجہ دلائی تھی اور سفارش کی تھی کہ نگران سیٹ اَپ کے بارے‘ ارکان کے اختیارات و فرائض کو قانونی شکل میں واضح کیا جائے تاکہ ان کے کسی اقدام کو چیلنج کرکے پورے انتخابی عمل کو متنازع نہ بنایا جا سکے۔ اس خطرے کا سدباب کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ راستہ اپنا کر ہاری ہوئی پارٹی پورے جمہوری عمل کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔
عمران خان اور شیخ رشید کو اگر آئین کے تحت موجودہ جمہوری سیاسی عمل کا تسلسل عزیز ہے تو انہیں اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہئے۔ اس وقت الیکشن سر پر ہیں۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت 31 مئی کو ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد 90 دن کے اندر نئے انتخابات کروانے کیلئے وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کو باہمی مشاورت کے ذریعے نگران وزیراعظم کا نام پیش کرنا ضروری ہو گا۔ جمہوری سیاسی عمل کے تسلسل اور ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ اس معاملے میں جو آئینی اور قانونی ابہام ہیں‘ انہیں دور کیا جائے تاکہ جمہوریت کا سفر رواں دواں رہے۔