مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام ویسے تو 1948ء سے ہی قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں‘ لیکن جولائی 2016ء میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیری عوام کے خلاف بھارتی افواج کی بہیمانہ کارروائیوں نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ نہتے شہریوں‘ جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے‘ کو چھَرے دار بندوقوں کی فائرنگ سے زخمی کیا جاتا ہے۔ ان چھَروں سے نوجوان زخمی ہوتے ہیں اور چھَرے آنکھوں میں لگیں تو وہ بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بھارتی افواج کی بندوقوں کے چھَروں سے اب تک درجنوں کشمیری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ احتجاجی مظاہرین کے خلاف ایسی بندوقوں کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے باوجود بھارتی افواج یہ بندوقیں بڑے دھڑلے سے استعمال کر رہی ہیں اور عالمی برادری اس کا نوٹس نہیں لے رہی۔ مشتعل عوام کے احتجاجی جلوسوں کو منتشر کرنے کے لئے ان پر آنسو گیس کے گولے بھی پھینکے جاتے ہیں۔ اس پر بھی جب سکیورٹی فورسز احتجاج کی اٹھتی ہوئی لہر کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں تو ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے‘ جس سے نہتے کشمیری شدید زخمی ہو جاتے ہیں‘ اور ان میں کئی جام شہادت نوش کر جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات اور تصادم آئے دن ہوتے چلے آ رہے ہیں‘ جن کی وجہ سے کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کو جام شہادت نوش کرنا پڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کرنے والے کشمیری عوام اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے درمیان سنگین تصادم کے واقعات میں غیر معمولی تیزی آ چکی ہے‘ اور اس کی وجہ سے بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق صرف رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 51 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل ڈیڑھ سال کے عرصے میں سو سے زیادہ کشمیریوں کو بھارتی افواج شہیدکر چکی ہے‘ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق 1989ء سے اب تک پچانوے ہزار کے قریب کشمیری نوجوانوں کو بھارتی سکیورٹی فورسز گولی کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ جو اغوا اور غائب کئے جا چکے ہیں‘ وہ الگ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اگر اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں تو بے وجہ نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں تشدد کے واقعات کا موجودہ سلسلہ ہفتہ کے روز سے جاری ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے شوپیاں اور اننت ناگ کے علاقوں میں مبینہ طور پر چھپے ہوئے مجاہدین کے خلاف کارروائی کا آغاز ہے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز اور 'مجاہدین‘ کے درمیان فائرنگ کا جو سلسلہ حال ہی میں شروع ہوا اس میں ایک درجن کے قریب مجاہدین کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے علاوہ تین بھارتی فوجی جوان بھی ہلاک ہوئے۔ اگرچہ بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مجاہدین کے خلاف جو آپریشن ہفتے کی شام کو شروع کیا گیا تھا‘ وہ اب ختم ہو چکا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشتعل کشمیری عوام اور بھارت کی سکیورٹی فورسز کے درمیان خونریز تصادم جاری ہے۔ پیر کے روز بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے مزید پانچ افراد شہید ہو گئے۔ اس روز بھارتی مظالم کے خلاف مقبوضہ وادی میں یومِ سوگ منایا گیا‘ اور جیسا کہ ایک کشمیری لیڈر نے کہا ہے‘ لاشیں گرنے کا عمل ابھی جاری ہے‘ کیونکہ کشمیری نوجوانوں کو بے دریغ قتل کرنے کے خلاف ارد گرد کے دیہات سے لوگوں کے احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے خلاف بھارتی سکیورٹی فورسز بھی پوری طرح متحرک ہیں۔ اسی طرح سری نگر میں بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے ہیں‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری وادیٔ کشمیر سراپا احتجاج ہے‘ لیکن دہلی میں بی جے پی کی مودی سرکار بدستور بے حسی کا شکار اور نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہے‘ حالانکہ کشمیری عوام نے اپنا فیصلہ واضح طور پر سنا دیا ہے‘ اور وہ یہ کہ وہ کسی صورت میں بھارت کی غلامی میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہر جلسے اور جلوس بلکہ بچے بچے کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے‘ آزادی‘ آزادی‘ لیکن بھارت کی مرکزی حکومت کشمیریوں کی اس آواز کو سننے کی بجائے اسے گولیوں کے زور پر دبا دینا چاہتی ہے‘ خاموش کر دینا چاہتی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے ایک سابق وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ کے مطابق بھارت کی موجودہ حکومت کی یہی روش ہے‘ جس کی وجہ سے پوری ریاست میں کشت و خون کا بازار گرم ہے۔ یعنی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کی بجائے مودی سرکار طاقت کے زور پر اسے دبا دینا چاہتی ہے۔ یہی مؤقف ریاست کی موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا ہے‘ جنہوں نے متعدد بار بھارتی حکومت پر پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ دہلی حکومت کو طاقت کے استعمال سے احتراز کرنے اور مسئلے کو پُرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے حلقوں بلکہ خود بھارت کے اندر سے اعتدال پسند اور امن پسند شخصیات‘ جن کا تعلق سیاست‘ فوج اور صحافت سے رہا ہے‘ کی طرف سے بھی دیا جا رہا ہے۔ یہی آواز بین الاقوامی سطح پر بھی دنیا کے اہم ممالک کی طرف سے بلند کی جا رہی ہے۔ خود اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل‘ امریکہ‘ روس‘ چین اور یورپی یونین کے رہنمائوں اور حکومتوں کی طرف سے بھی کشمیر میں تشدد خصوصاً شہریوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کیلئے فوری اقدام کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کیلئے مذاکرات کا عمل شروع کرنے پر زور دیا گیاہے‘ کیونکہ بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی یہ صورتحال جاری رہی‘ اور بھارت کی سکیورٹی فورسز کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ بناتی رہی تو جہاں ایک طرف کشمیر میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے‘ وہاں دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے آر پار سے آئے دن بھاری فائرنگ کی وجہ سے پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز اور مجاہدین کے درمیان جھڑپوں کا دائرہ مزید وسیع ہوتا ہے‘ اور اس کے نتیجے میں شہریوں کے جانی نقصان میں اضافہ ہوتا ہے تو ردعمل کے طور پر پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گا۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں نے اپنے اپنے عوام کی سہولت کیلئے گزشتہ ایک ڈیڑھ دھائی میں اعتماد سازی کے جو اقدامات کئے تھے اور جن پر کشیدگی کے باوجود تسلی بخش طریقے سے کام ہو رہا ہے‘ خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ان اقدامات میں پاکستان اور بھارت کی بین الاقوامی سرحد پر آمد و رفت‘ تجارت کے انتظامات‘ لائن آف کنٹرول پر سری نگر‘ مظفر آباد بس سروس اور پونچھ‘ راولا کوٹ کے درمیان ٹرک سروس‘ شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدامات پاکستان اور بھارت کے عوام کے مفاد میں ہیں‘ اس لئے نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ کشمیری عوام بھی ان اقدامات کو جاری رکھنے کے حق میں ہیں‘ لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال سے ایسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے‘ جس میں اعتماد سازی کے ان اقدامات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات کو اور بھی کم کر دے گا۔ اس لئے کشمیر میں نہتے عوام کو تشدد کا نشانہ بنانے والی بھارتی حکومت کی پالیسی کو ختم کرنا ہو گا۔ بھارت جتنی جلدی سمجھ جائے بہتر ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر کشمیری عوام کو زیادہ دیر تک زیرِ تسلط نہیں رکھ سکتا۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ اس کو تلاش کرنے کیلئے بھارت کو نہ صرف کشمیری حریت پسندوں بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی فوری طور پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ہو گا۔