چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا جو جائزہ لیا ہے‘ اس پر مختلف زاویۂ نگاہ سے مختلف آرا ظاہر کی جا رہی ہیں۔ بعض حلقے اسے جوڈیشل ایکٹو ازم سے زیادہ سرگرمی قرار دے رہے ہیں۔ سیاست دانوں خصوصاً پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے تو اسے انتظامیہ کے امور میں مداخلت کے مترادف قرار دیا ہے‘ لیکن دیگر حلقے اسے خوش آئند کہتے ہوئے اس کو وقت کی ضرورت اور عوامی مفاد کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ ان کے مسائل کے حل کے لئے کوئی تو آگے آیا ہے۔ انتظامیہ کے فیصلوں‘ کارکردگی اور اس کی پالیسی کا تنقیدی جائزہ لینے کا یہ عمل نہ تو حیران کن ہے‘ نہ نیا ہے اور نہ ہی پاکستان تک محدود ہے۔ یو پی اے (یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس) کے دور میں سابق بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت کو بعض پالیسی مسائل پر بھارت کی عدلیہ سے گلہ کرنا پڑا تھا۔ تاہم بھارت میں اس کا دورانیہ نہ تو طویل رہا ہے اور ہی اس کا فوکس شہریوں کو درپیش روزمرہ کے مسائل رہے۔ پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں اس کی زد میں آ کر بیوروکریٹک استبداد اور رعونت کا مجسمہ بنے بڑے بڑے تن آور درخت بھی جڑ سے اکھڑ گئے ہیں‘ اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے‘ کیونکہ عزت مآب چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ وہ جہاد پر نکلے ہیں اور دنیا جو مرضی کہے‘ وہ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ چیف جسٹس کے اس عزم اور مہم کی آئینی تشریح اور اس پر دیگر اداروں کی طرف سے اعتراضات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ چیف جسٹس کے اس جہاد کو زبردست عوامی پذیرائی ملی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے قومی ترقی کی حکمت عملی میں عوام کو درپیش بنیادی مسائل مثلاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سہولتوں کے فقدان‘ پینے کے لئے صاف پانی کی کم یابی اور سانس لینے کے لئے صاف اور آلودگی سے پاک ہوا کی عدم دستیابی‘ بچوں اور نوجوانوں کے لئے صحت مندانہ ماحول پیدا کرنے اور جسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے مواقع بڑھانے‘ کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ ان مسائل میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے اور اتنی شدت آ چکی ہے کہ انہیں حل کرنا پہاڑ جیسا مشکل کام نظر آتا ہے۔ اگر چیف جسٹس صاحب کے کسی ہسپتال کے دورے کے موقع پر عوام علاج معالجہ کی سہولتوں کے فقدان کے بارے میں شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں تو اس میں عزت مآب چیف جسٹس کا کیا قصور ہے؟ جب حکومتی سطح پر ان مسائل کے حل کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا تو عوامی ردعمل ویسا ہی ہو گا جیسا کہ چیف جسٹس کے دوروں کے مواقع پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کا کم از کم ایک فائدہ تو نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ مختلف حکومتوں نے اپنی کارکردگی کے بارے میں جو بلند بانگ دعوے کر رکھے تھے‘ ان کی قلعی مکمل طور پر کھل گئی ہے‘ اور عوام کو یہ جاننے کا موقع ملا ہے کہ ترقی اور تبدیلی کے نام پر ان کے سامنے جو تصویر پیش کی جا رہی تھی‘ اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ یہ کہ ان کے حکمران ان کے ساتھ کتنے مخلص ہیں اور کتنے عوام دوست ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس صاحب کے ان دوروں کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو درپیش ان مسائل کا مستقل اور دیرپا حل حاصل کر لیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب فاضل چیف جسٹس نے خود ہی فراہم کر دیا ہے۔ پشاور میں وکلا برادری سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سازی یا پالیسیوں کی تشکیل سپریم کورٹ نہیں بلکہ مقننہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے ''میرا کام تو قانون پر عمل درآمد کروانا ہے‘‘۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اکیلے یہ مسائل حل نہیں کر سکتے‘ انہیں ایک ادارے یا ایک شخصیت کی مجبوریاں کہا جا سکتا ہے‘ لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسے نظام کی خامیاں ہیں جو نوآبادیاتی دور سے ہمیں ورثے میں ملا ہے اور جسے عوامی مفادات اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش نہیں کی گئی۔ فاضل چیف جسٹس کے دوروں کے نتیجے میں عوامی مسائل کی جو زبوں حالی سامنے آئی ہے‘ اس سے تاثر یہ ملتا ہے کہ اس کی وجہ حکومت اور اس کے محکموں کی عدم توجہی‘ ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی بھرمار ہے۔ بہت حد تک یہ تاثر درست ہے‘ لیکن اصل مسئلہ انتظامی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ سیاسی‘ سیاست کے ان وسیع معنوں میں جس کے تحت سیاست کا مطلب وسائل پر کنٹرول اور ان کی تقسیم کا نظام ہے‘ یا دوسرے معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا انحصار سیاسی نظام یا ریاست کی نوعیت پر ہے۔ اگر ریاست کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح و بہبود یعنی ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کو ترجیح دینا ہے تو عوام کو تعلیم‘ صحت‘ صاف پانی اور صاف ہوا کی کمیابی جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘ اور نہ ہی کسی ملک کے چیف جسٹس کو ان کی طرف توجہ دلانا پڑے گی۔ یہ مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں کی توجہ ان مسائل کے حل کی طرف نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر اقربا پروری میں لگے رہتے ہیں اور موجودہ دور میں تو کرپشن یعنی بدعنوانی کی روش بھی بڑی عام ہے۔ جس ادارے یا شعبے کے معاملات کو کھنگالا جائے اسی میں بدعنوانی اور وسائل کے ناجائز استعمال کے تشویشناک معاملات سامنے آتے ہیں۔ ادارے اگر ٹھیک طور پر کام نہیں کر رہے تو اس کے ذمہ دار حکومت اور حکمران ہی ہوتے ہیں۔ پھر ملک میں عوام کی فلاح و بہبود‘ تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور ان شعبوں میں عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کی بجائے‘ ریاست کی سکیورٹی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے پر وسائل کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تعلیم‘ صحت اور دیگر فلاحی شعبوں میں فی کس اخراجات کے لحاظ سے دنیا کے 200 ممالک میں سے بیشتر سے پیچھے ہے۔ اس روز روشن کی طرح عیاں حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عوامی فلاح کے شعبوں کو نظر انداز کرنے سے قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ان کے حصے میں وہی وسائل رہ جاتے ہیں‘ جو باقی بچتے ہیں۔ اگر حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ دیں اور ان کی فراہمی کے لئے ضروری وسائل مہیا کریں تو ہسپتالوں‘ سکولوں اور انسانی آبادیوں کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کی پریشانیاں اور مشکلات دور ہو سکتی ہیں اور ان میں غم و غصے‘ تشدد کی طرف مائل ہونے اور معاشرے میں عدم برداشت کے رویوں میں کمی آ سکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ اور امیر ملکوں میں بھی سماجی مسائل موجود ہیں‘ لیکن دوسرے شعبوں اور فلاح و بہبود کے درمیان مناسب توازن رکھنے سے ایسے کئی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ جن کا اس وقت پاکستانی قوم کو شدت سے سامنا ہے۔ مگر اس کے لئے سوچ اور نقطہ نظر میں بنیادی تبدیلی بلکہ وسیع تر معنوں میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے‘ لیکن اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہمیں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے یا کچھ اور بنانا ہے۔ جب تک اس بنیادی ترین سوال کا جواب تلاش نہیں کر لیا جاتا‘ پاکستان کے عوام کو درپیش ان مسائل کا دیرپا اور طویل المیعاد حل حاصل نہیں ہو گا‘ جن کو فاضل چیف جسٹس اپنے دوروں میں میڈیا کے سامنے لا رہے ہیں۔ ویسے بھی عوام ان مسائل سے بڑی حد تک آگاہ ہیں کیونکہ ان مسائل کی وجہ سے تمام تر مشکلات کا آخر کار انہیں ہی سامنا کرنا پڑتا ہے‘ چاہے وہ بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی سہولیات نہ ملنے کے حوالے سے ہوں یا زندگی کی دوسری بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے تناظر میں۔