جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں فرمایا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے مستقل اور اطمینان بخش حل کیلئے کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا پڑے گا۔ پانی کے بحران کا از خود (Suo Moto) نوٹس لیتے ہوئے جناب چیف جسٹس نے میڈیا رپورٹس کے مطابق حکمرانوں (سیاسی حکومتوں) کو موجودہ بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے کیونکہ بقول ان کے سیاستدانوں کا مقصد صرف ووٹوں کا حصول ہے۔ جبکہ عوام بنیادی سہولیات سے محروم رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ملک کے بڑے بڑے شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی پانی کی عدم دستیابی کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں‘ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران کتنی شدت اختیار کر چکا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز (PCRWR) نے ملک میں پانی کے بحران کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق یہ بحرانی کیفیت 1990 ء سے چلی آ رہی ہے۔ 2005 ء میں پاکستان کا ان ملکوں میں شمار ہوتا تھا جن میں پانی کی کمی کا سامنا تھا اور چونکہ اس کمی کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اس لیے رپورٹ کے مطابق آج سے سات سال بعد یعنی 2025ء میں پاکستان ان ملکوں میں شامل ہو جائے گا جہاں پانی کی انتہائی شدید قلت ہو گی۔ اس مسئلے کی سنگینی کی طرف اس ایک رپورٹ نے اشارہ نہیں کیا۔ پچھلے دنوں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی آف واٹر کے روبرو واپڈا کے چیئر مین نے بھی کچھ اسی قسم کا نقشہ کھینچتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ پانی کا بحران سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور نہ صرف زرعی آبپاشی بلکہ پینے کیلئے بھی پانی بتدریج کم ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ خراب صورت حال زرعی شعبے کی ہے جس سے ملک کی 60 فیصد آبادی وابستہ ہے اور جہاں 90 فیصد پانی استعمال ہوتا ہے۔ زرعی شعبے کیلئے پانی کی کم سپلائی سے قومی معیشت متاثر ہو سکتی ہے‘ کیونکہ زراعت کو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح پانی کی کم سپلائی کی وجہ سے خوراک کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے غربت میں اضافہ کے علاوہ سماجی خلفشار اور علاقائی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ اس لیے گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصہ کے دوران میں ہمارے جن حکمرانوں نے اس اہم سیکٹر میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا وہ یقینا مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہیں۔ ان حکمرانوں میں سول اور فوجی دونوں شامل ہیں۔ محض سیاستدانوں کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانا شاید پوری طرح درست نہیں ہو گا‘ بلکہ صوبوں، خصوصاً پنجاب اور سندھ کے درمیان 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم پر جھگڑے کو حل کر کے ہمارے سیاستدانوں نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جو بھارت ابھی تک کرناٹک اور تامل ناڈو کے درمیان دریائے کاویری کے پانی کو تقسیم کرنے کیلئے حاصل نہیں کر سکا۔
جنرل ضیاء الحق نے 11 سال اور جنرل مشرف نے 9 سال تک ملک پر مکمل آمرانہ اختیارات کے ساتھ حکومت کی۔ لیکن ان کی تمام تر توجہ اپنے اقتدار کو تحفظ فراہم کرنے پر مرکوز تھی۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سیاستدان اس ضمن میں مکمل طور پر بری الذمہ ہیں۔ بلکہ بحران کی سنگینی کے پیش نظر پانی کے مسئلے کا حل ان کی حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ غالباً اسی وجہ سے فاضل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں فرمایا ہے کہ سیاستدانوں کو کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا۔ کیونکہ جیسا کہ چیئرمین واپڈا نے سینیٹ کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہیں ہوگا، کالا باغ ڈیم پر کام شروع نہیں ہو سکتا۔ کالا باغ ڈیم کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ لیکن جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ یہ پاکستان سے زیادہ اہم نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا انحصار ان اکائیوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق پر ہے جن سے ملک تشکیل پاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم ایک ایسا ڈیم ہے جس کو بنانا تکنیکی اعتبار سے بالکل آسان ہے۔ اس پر لاگت کم سے کم آنے کا امکان ہے اور اسے مکمل کرنے میں کم سے کم وقت درکار ہے اس لیے یہ بجلی کی پیداوار میں فوری طور پر اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس منصوبے کا دوسرا اور انتہائی اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب کے علاوہ ملک کے باقی تینوں صوبے یعنی سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کی اسمبلیاں اس کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی ہیں۔
کالا باغ ڈیم کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے اسے سیاسی طور پر ہی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبوں میں اس کے خلاف سخت رائے پائی جاتی ہے اس لیے اس پر قومی اتفاق رائے کا حصول ایک طویل اور صبر آزما عمل ثابت ہوگا۔ ان حقائق کے پیش نظر بہت سے حلقے اس رائے کے حامی ہیں کہ ملک میں پانی اور بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم کے متبادل منصوبوں پر کام شروع کیا جائے۔ غیر متنازعہ ہونے کی وجہ سے ایسے منصوبوں پر جلد کام شروع کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ اہم کام پانی کے استعمال میں ضیاع کو روکنا ہے۔ کیونکہ اس بات سے قطع نظر کہ کالا باغ ڈیم تعمیر ہوتا ہے یا نہیں باقی تمام دنیا کی طرح پاکستان کو بھی آنے والے برسوں میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب تک پاکستان کو پیش آنے والے پانی کے بحران کی تین بڑی وجوہات ہیں زرعی شعبے میں آبپاشی کے فرسودہ طریقے جن کی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ آبادی خصوصاً شہری آبادی میں اضافہ اور آب و ہوا میں تبدیلی (Climate Change) دنیا کے کئی ممالک میں آب پاشی کے جدید طریقے اختیار کر کے زرعی شعبے میں پانی کی کھپت کو کم کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایسی فصلوں مثلاً گنا جسے پانی کی بہت زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے کی کاشت سے اجتناب کیا جا سکتا ہے اور اس طرح پانی کی ایک معقول مقدار کو بچایا جا سکتا ہے شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات مثلاً مکانات اور عمارات کی تعمیر اور عام استعمال کے لئے پانی کی بہت زیادہ مقدار درکار ہے۔ ملک میں فی کس دستیاب پانی کی مقدار میں کمی کی وجوہات میں اربنائزیشن بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ جیسا کہ واپڈا کے چیئر مین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے دریائوں میں بہنے والا پانی 25-35 فیصد بارش اور باقی یعنی 65-75 فیصد گلیشئرز سے حاصل ہوتا ہے۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے وہ گلیشئرز جو صدیوں سے دریائے سندھ اور گنگا جمنا کے طاس کے دریائوں کو پانی مہیا کرتے چلے آ رہے تھے آہستہ آہستہ پگھل رہے ہیں اور ان کی جگہ نئے گلیشئرز نہیں بن رہے اس کی وجہ سے بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں گرنے والے دریائوں میں پانی کی مقدار کم ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ایک ڈیم کی تعمیر ہونے یا نہ ہونے سے متاثر نہیں ہو گا۔ بلکہ یہ ایک وسیع مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے تمام ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ بھی اس سنگین مسئلے کا حل تلاش کرتے وقت اسے اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھے گی۔