حال ہی میںعالمی سطح پر دو اہم تنظیموں کے سربراہی اجلاس ہوئے ہیں۔ ایک سربراہی اجلاس 8 ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا تھا۔ یہ اجلاس جنوبی چین کے صنعتی شہر چنگ ڈائو (Qingdao) میں منعقد ہوا اور اس میں چین اور روس کے علاوہ پاکستان، بھارت اور وسطی ایشیا کی چار ریاستوں کے سربراہان نے شرکت کی ۔ پاکستان کی نمائندگی صدر مملکت ممنون حسین نے کی جبکہ بھارت کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی شریک ہوئے۔ دوسرا سربراہی اجلاس کینیڈا میں منعقد ہوا اور اس میں دنیا کے سات امیر ترین ممالک کی تنظیم ''جی۔سیون (G-7) کے رکن ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے، فرانس کے صدر امانویل میخواں اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل شامل تھیں۔
دونوں تنظیموں کے سربراہی اجلاس کی کارروائی اور نتیجے کا موازنہ کریں تو ایک دوسرے سے بالکل مختلف بلکہ الٹ تصویر نظر آتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک رہنمائوں کے چہروں پر خوشی، امید، خیر سگالی اور تعاون پر آمادگی کے آثار نظر آتے ہیں جبکہ جی۔ 7 کے اجلاس میں شرکت کرنے والے امیر اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے رہنمائوں کے چہروں پر تنائو، ناراضگی، فکر، غصہ اور نفرت کے ملے جلے تاثرات چھائے ہوئے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روزہ اجلاس کے بعد رکن ممالک نے متفقہ طور پر تنظیم کے مقاصد یعنی علاقائی تعاون، امن، ترقی اور سلامتی کے قیام اور باہمی روابط، خیر سگالی اور تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اعلان کیا جبکہ جی ۔7 کا اجلاس جس امریکہ اور دیگر رکن ممالک کے درمیان تجارت اور امریکہ کی طرف سے درآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کے مسئلے کو حل کئے بغیر ختم ہو گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی صفوں میں اتحاد نظر آتا ہے جبکہ جی۔7 کی تنظیم کا شیرازہ بکھرتا نظر آ رہا ہے۔
جی۔7کی تنظیم کا قیام 1970 ء کی دہائی کے نصف حصے میں عمل میں آیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ''اوپیک‘‘ (OPEC) کی طرف سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے رجحان کو روکنا تھا۔ 1970ء کی دہائی اور آج کل کی دنیا کے سیاسی، معاشی اور عسکری توازن کی صورتحال بہت مختلف ہے۔ 1970ء کی دہائی میں چین ''عظیم ثقافتی انقلاب‘‘ کی پیدا کردہ نیم خانہ جنگی کی کیفیت میں مبتلا تھا اور اس کا شمار تیسری دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ وسطی ایشیائی ریاستیں سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھیں اور علاقائی یا بین الاقوامی سیاست میں ان کا الگ سے کوئی کردار نہ تھا۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک یعنی ایران، سعودی عرب، عراق ، کویت، متحدہ عرب امارات، الجزائر اور لیبیا کو 1973-76ء کے دوران مغربی ممالک کے خلاف تیل بطور ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے پہلی مرتبہ اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن خام تیل کی صفائی اور اس کی مارکیٹنگ پر ابھی مغربی ممالک کو اجارہ داری حاصل تھی۔ تاہم تیل کی سپلائی پر پابندی اور اس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے نے مغربی دنیا کی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ جی۔7 کی تنظیم مغربی ممالک کو در پیش اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، کیونکہ ان کی معیشت کا دارومدار مشرق وسطیٰ سے سستے داموں اور بلا روک ٹوک تیل کی سپلائی پر تھا۔ اپنے قیام کے دس برس کے اندر جی۔7 نے او پیک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور انتہائی سستے داموں تیل حاصل کر کے اپنی دولت اور خوشحالی میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔
لیکن اب زمانہ تبدیل ہو چکا ہے اور اس تبدیلی کا ایک اہم مظہر شنگھائی تعاون کی تنظیم ہے جس نے قلیل عرصہ میں نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر ایک کامیاب تنظیم کا رتبہ حاصل کر لیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کو 2001ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد سابق سودیت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور وسطی ایشیا کی آزاد ریاستوں کے ظہور سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا تھا۔ ابتدا میں اس میں پانچ ممالک یعنی چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور ازبکستان شامل تھے، اس لیے اسے شنگھائی۔فائیو (Shanghai-5) کہا جاتا تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں رکن ممالک کو در پیش اندرونی اور بیرونی سلامتی کے چیلنجوں کا سامنا کرنا شامل تھا، لیکن اب تنظیم نے رکن ممالک میں مواصلات، تجارت اور معیشت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔ اپنے قیام کے بعد کافی عرصہ تک شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے دروازے نئی رکنیت کے خواہش مند ممالک پر بند رکھے ۔ اس کی غالباً بڑی وجہ یہ تھی کہ تنظیم پہلے اپنے اعلان کردہ مقاصد کے حصول اور تنظیمی استحکام پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ تنظیم دیگر خطوں کے ممالک کو مستقل رکنیت دے کر ان ممالک کے باہمی جھگڑوں کو اپنے پلیٹ فارم پر نہیں لانا چاہتی تھی۔ اس ضمن میں پاکستان اور بھارت کی خاص طور پر مثال دی جا سکتی ہے۔ دونوں ممالک تنظیم کے مستقل رکن بننے کے خواہش مند تھے۔ لیکن ان کے باہمی اختلافات ان کی خواہش کی تکمیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ تاہم اس یقین دہانی پر کہ یہ ممالک اپنے باہمی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے تنظیم کا پلیٹ فارم استعمال نہیں کریں گے، شنگھائی تعاون تنظیم میں پا کستان اور بھارت کو مستقل رکنیت دے دی گئی۔ تنظیم کے 2018ء کے سربراہی اجلاس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پاکستان اور بھارت کے سربراہان پہلی مرتبہ شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی مستقل رکنیت کے علاوہ جنوبی ایشیا سے نیپال اور سری لنکا، شنگھائی تعاون تنظیم کے ڈائیلاگ رکن ہیں اور اگر شنگھائی تعاون تنظیم کو چین کے وسیع تر منصوبے یعنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and road initiative) سے مربوط کیا جائے تو مالدیپ کو بھی اس دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کو پاک چین اکنامک کوریڈور (CPEC) میں شرکت کی پہلے ہی دعوت دی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے بعد ایران کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کرنے کی تیاریاں مکمل تھیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر کے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا جو اعلان کیا ہے اسی سے ایران کی رکنیت کا مسئلہ فی الحال کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ تاہم چین، روس اور وسطی ایشیا کے بعد جنوبی ایشیا تک شنگھائی تعاون تنظیم کی وسعت ایک اہم واقعہ ہے۔ اس کے صرف ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ شنگھائی ممالک میں شامل آٹھ ممالک دنیا کی کل آبادی کا آدھا حصہ ہیں۔ ان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا حساب کیا جائے تو یہ دنیا کا 20 فیصد بنتی ہے۔ اس تنظیم کے دائرہ کار میں اب تک روڈ، ریلوے اور توانائی کے متعدد منصوبوں پر کام ہو چکا ہے اور نئے منصوبوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ صرف چین نے تنظیم کے رکن ممالک میں اب تک 21 اقتصادی اور تجارتی تعاون پر مبنی زون قائم کیے ہیں۔ ان سے ہی تنظیم کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔