"DRA" (space) message & send to 7575

افغانستان:اہم پیش رفت کی امید

امریکہ کی پرنسپل ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ ایمبیسیڈر ایلس ویلز نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ اپنے اس دورے میں ٹرمپ انتظامیہ کی سینئر سفارت کار نے پاکستان کے اعلیٰ حکام اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کی ہیں‘ جن میں باہمی دلچسپی کے دو طرفہ امور کے علاوہ علاقائی سلامتی سے متعلقہ مسائل خصوصاً افغانستان کی موجودہ صورتحال بھی زیر بحث آئی ہے۔ ایلس ویلز نے اسلام آباد آنے سے قبل کابل کا بھی دورہ کیا تھا‘ جہاں انہوں نے عید الفطر کے موقعہ پر افغان فورسز اور طالبان کے درمیان مختصر جنگ بندی میں طالبان کی طرف سے توسیع نہ کرنے کے فیصلے کو ''ناقابلِ قبول‘‘ قرار دیتے ہوئے طالبان پر زور دیا کہ وہ 17 برس سے جاری اس خانہ جنگی کو پر امن طور پر ختم کرنے کیلئے افغان حکومت کے نمائندے سے بات چیت میں شمولیت اختیار کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے طالبان پر مزید دبائو ڈالے کیونکہ با خبر ذرائع کے مطابق عید الفطر کے موقعہ پر طالبان کی طرف سے جس تین روزہ جنگ بندی پر عمل کیا گیا‘ اس میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنا یہ کردار جاری رکھے اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی کی توسیع یا مذاکرات سے انکار کے باوجود طالبان کو افغانستان میں اس جنگ کو پر امن طریقے سے ختم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے سول اور ملٹری حکام کے مطابق افغانستان میں امریکی اور افغان فورسز سے برسرپیکار حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان نے پاکستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں ان دونوں گروپوں کے سینئر رہنما افغانستان میں حملوں کی نہ صرف منصوبہ بندی کرتے ہیں بلکہ یہاں سے اپنے لوگوں کو کمک بھی فراہم کرتے ہیں۔ کابل میں اپنے قیام کے دوران ہی ایلس ویلز نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ جہاں تک افغانستان کے اندر لڑنے والے طالبان کا تعلق ہے‘ وہ جنگ سے اکتا چکے ہیں اور مذاکرات پر آمادہ ہیں‘ عید کے موقعہ پر مختصر مگر غیر معمولی جنگ بندی کے دوران طالبان اور افغان سرکاری افواج جس طرح ایک دوسرے سے خوش دلی سے ملے اور افغانستان کے شہروں میں ہزاروں طالبان کو جس طرح افغان شہریوں نے خوش آمدید کہا‘ اس سے اس جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔
طالبان ان تین دنوں میں افغان سپاہیوں اور عوام کے ساتھ جس طرح گھل مل گئے اور عید کی نماز بھی اکٹھے ادا کی اس سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ متحارب فریق جنگ سے اکتا چکے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ قندھار سے کابل سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں امن پسند کارکنوں کا لانگ مارچ بھی افغانستان میں امن کی شدید ضرورت اور خواہش کو منعکس کرتا ہے لیکن طالبان قیادت کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے پر افغان حکومت ، امریکہ اور افغانستان کے اندر امن پسند حلقوں کو سخت مایوسی ہوئی۔ امریکی اور افغان حلقوں کے مطابق طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے باہر مقیم اعلیٰ طالبان قیادت جنگ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ امریکی اور افغان حکام کے مطابق افغانستان سے باہر مقیم طالبان کی اعلیٰ قیادت کا ایک حصہ پاکستان میں ہے‘ اور وہ بھی جنگ جاری رکھنے کے حامی ہیں۔ اس مفروضے کی بنیاد پر نہ صرف امریکہ بلکہ افغان حکومت بھی بار بار پاکستان پر دبائو ڈالتی ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم طالبان کی اس قیادت کو مذاکرات میں حصہ لینے پر مجبور کرے اور اگر وہ پاکستان کا دبائو قبول نہ کریں تو ان کے خلاف پاکستان اقدام کرے جس میں ان کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ اور پاکستان کے راستے انہیں ملنے والی مبینہ حربی اور مالی امداد بند کرنا بھی شامل ہے۔ اپنی طرف سے پاکستان تو اولاً اس بات سے انکاری ہے کہ اس کی سر زمین پر طالبان کے کوئی محفوظ ٹھکانے ہیں۔ ماضی میں اگر ایسے ٹھکانے تھے تو انہیں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مسلح آپریشنز کے ذریعے تباہ کیا جا چکا ہے‘ لیکن امریکہ یہ مؤقف تسلیم نہیں کرتا اور اس کے جرنیل اس بات پر بضد ہیں کہ افغانستان کی گتھی سلجھانے میں پاکستان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اسلام آباد کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام نا ممکن ہے۔ اگرچہ امریکی حکام یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان میں ہزاروں شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر قریبی تعاون پر مبنی تعلقات بہتر بنانے کی جو کوشش کی ہے‘ امریکی اور افغان حکام اس کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی فوج نے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن کیے‘ ان کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کا ثبوت پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی کی صورت میں موجود ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر علی جہانگیر صدیقی نے بھی اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں اس حقیقت کی طرف اشارہ اور دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی کوششوں سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی۔ امریکی بھی کم و بیش اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ان کا گلہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنی کارروائیوں میں صرف ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جو پاکستانی سکیورٹی اداروں یا اہلکاروں پر حملہ کرتے ہیں‘ جہاں تک ان دہشت گردوں کا تعلق ہے جو افغانستان میں افغان سرکاری فوجوں اور امریکہ کی سرکردگی میں لڑنے والے فوجیوں پر حملے کرتے ہیں پاکستان ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ بلکہ امریکی دعوئوں کے مطابق انہیں پاکستان کی سر زمین کو افغانستان کے اندر کارروائیاں کرنے کی سہولتیں حاصل ہیں‘ جنہیں امریکی محفوظ پناہ گاہیں کہتے ہیں۔ اس سال یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشہور ٹویٹ میں بھی الزام عائد کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حلیف ہونے کی حیثیت سے پاکستان نے امریکہ سے اب تک 30 بلین ڈالر سے زائد رقم وصول کی ہے لیکن اس کے بدلے امریکہ مخالف دہشت گردوں کی سرکوبی کرنے کی بجائے پاکستان ان کی اعانت کرتا ہے۔ پاکستان نے یہ الزام نہ صرف مسترد کر دیا تھا بلکہ اس پر سخت رد عمل کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس کے بعد گزرنے والے گزشتہ تقریباً 6 ماہ کے عرصہ میں پاک، امریکہ تعلقات میں نمایاں تنزلی واقع ہوئی ہے۔ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد کے تحت پاکستان کے حصے کی ادائیگی روکنے کے علاوہ پاکستان کو ہر سال دی جانے والی فوجی اور اقتصادی امداد بھی روک دی ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر دونوں ملکوں نے اپنے ہاں مقیم ایک دوسرے کے سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کافی حد تک کشیدہ ہو گئے تھے۔ لیکن اس اثنا میں دو محاذوں پر ایسی پیش رفت ہوئی جس کی وجہ سے نہ صرف پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے بلکہ افغانستان میں بھی جنگ کے خاتمہ اور قیام امن کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک تو پاک افغان دو طرفہ تعلقات میں بہتری ہے اور دوسری عید الفطر کے موقعہ پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی ۔اب یہ ایک مصدقہ امر ہے کہ پاکستان نے اس جنگ بندی پر طالبان کو راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی میں توسیع کے باوجود جنگ بندی میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم امریکی اور افغان حکام کو یقین ہے کہ طالبان کو جنگ بندی اور امن مذاکرات میں شرکت پر راضی کیا جا سکتا ہے اور پاکستان اس میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایمبسیڈر ایلس ویلز کا دورۂ پاکستان اسی مقصد کی تلاش میں ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان، افغانستان میں اور خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں یہ کوشش کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں