گزشتہ جمعہ کے روز دو انتہائی افسوسناک سانحات رونما ہوئے۔ مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسہ میں ہونے والے خود کش دھماکے میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار‘ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے بھائی نواب زادہ سراج خان رئیسانی سمیت 128 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے۔ دوسری جانب بنوں میں بھی انتخابی قافلے پر بم حملہ کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں 5 افراد دم توڑ گئے۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم درانی اس حملے میں بال بال بچے۔ اس سے محض دو روز قبل پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی انتخابی مہم کے دوران ایک خود کش حملے میں پارٹی کے سینئر رہنما ہارون بلور کے علاوہ 21 مزید افراد کی شہید ہو گئے۔ ان واقعات پر پوری قوم غمزدہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے ان واقعات کی مذمت کی ہے۔ سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کے علاوہ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصرالملک اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مرحوم ہارون بلور کے اہلِ خانہ سے ملاقات کرکے تعزیت کی۔
گزشتہ تقریباً دو ڈھائی برسوں میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں یہ غالباً سب سے زیادہ ہولناک اور تباہ کن واقعات تھے۔ پشاور کے واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) نے قبول کی ہے۔ دہشت گردی کے یہ قابل مذمت واقعات اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئے ہیں جو عام لوگوں کے ذہنوں میں اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک ان کا کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آتا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر پشاور والا حملہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے کیا‘ تو ان دعووں کی کیا حقیقت ہے جن میں کہا جا رہا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ ان کے کمانڈ اور کنٹرول سٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنما اور کارکن یا تو مارے گئے ہیں یا ہمسایہ ملک افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ پچھلے یعنی 2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں موجودہ یعنی 2018ء کے پارلیمانی انتخابات نسبتاً زیادہ محفوظ اور پرامن ماحول میں ہو رہے ہیں۔ ان کے بیان میں صداقت بھی ہے کیونکہ پچھلے چار پانچ برسوں کے مقابلے میں اب دہشت گردی کے واقعات اور خود کش حملوں میں بہت نمایاں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ٹی ٹی پی اتنے تباہ کن حملے کو عملی جامہ پہنانے میں کیسے کامیاب ہو گئی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ انتخابی میدان میں اور بھی سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں‘ لیکن کچھ مخصوص پارٹیوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر بھی ٹی ٹی پی نے جن سیاسی جماعتوں کو کھلے عام نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا‘ ان میں سب سے زیادہ جانی نقصان اے این پی کا ہی ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اے این پی کے تقریباً 700 کے قریب کارکن اور رہنما شہید کر دیئے گئے تھے۔ ان میں ہارون بلور کے والد محترم بشیر بلور بھی شامل تھے۔ ان حملوں کی وجہ سے 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر اے این پی کی قیادت اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں انہیں سیاسی حوالے سے نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اب بھی اس خود کش حملے کا بظاہر مقصد اے این پی کی انتخابی مہم کو متاثر کرنا نظر آ رہا ہے‘ کیونکہ خود کش بمبار نے اپنے آپ کو ایک دھماکے کے ساتھ اے این پی کی ایک کارنر میٹنگ میں اڑا دیا جس میں ہارون بلور شریک تھے۔ یہ کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے یہ کارروائی حال ہی میں اس کے امیر ملا فضل اللہ کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے خلاف رد عمل ہے۔ لیکن یہ ڈرون حملہ اے این پی نے تو نہیں کیا۔ پھر آخر اے این پی ہی کیوں نشانے پر ہے؟ اس کی ایک وجہ جو سمجھ میں آتی ہے‘ یہ ہے کہ اے این پی کا ایک سیاسی فلسفہ اور پالیسی سٹینڈ ہے۔ اس کی بنیاد پر اے این پی جنرل ضیا کے دور میں پاکستان کی افغان پالیسی کی مخالف تھی‘ اور طالبان کی جس طرح اے این پی نے ڈٹ کر مخالفت کی کسی اور سیاسی پارٹی نے نہیں کی۔ اس لئے وہ 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر ٹی ٹی پی کی ہٹ لسٹ پر تھی۔ اور 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر اسی کے جلسے جلوسوں اور رہنمائوں پر خود کش اور قاتلانہ حملوں کا مقصد اس کی کامیابی کے امکانات کو ختم کرنا تھا۔ پشاور میں حالیہ خود کش حملے کا بھی یہی مقصد نظر آتا ہے۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے اس اندوہناک واقعہ پر کہا ہے کہ اگر ان کی پارٹی کو دہشت گردی کی کارروائیوں، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا اسی طرح نشانہ بنایا گیا تو وہ انتخابی مہم کس طرح جاری رکھ سکتے ہیں؟ اس حملے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حکام کے دعووں کی روشنی میں ٹی ٹی پی کمزور اور غیر مؤثر تو ہو گئی ہے کیونکہ فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں‘ جنہیں وہ ماضی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی تیاری اور منصوبہ بندی کیلئے استعمال کرتی تھی‘ لیکن اس کا ڈھانچہ اب بھی موجود ہے اور اس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد اب بھی پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ افغان امور کے ماہر اور ممتاز صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق ٹی ٹی پی کے بیشتر ارکان جنوبی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے پہلے ہی اپنے علاقے خالی کرکے افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔ ان جنگجوئوں نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں‘ اور وہ ان کو استعمال میں لا کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان کی امداد کے لئے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق اگرچہ پاک آرمی پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہی ہے‘ لیکن باڑ لگانے سے دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کے آر پار لوگوں کی آمدورفت کو روکنا ناممکن ہے اور اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد مختلف مقامات سے سرحد عبور کرکے پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان آتی رہتی ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستانی طالبان‘ جو فوجی آپریشن کے دبائو کے تحت پاکستان چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے‘ واپس جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان آ چکے ہیں اور یہاں ''اچھے طالبان‘‘ کا روپ دھار کر اپنا اثر و رسوخ اور طاقت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ حالیہ الیکشن کے موقعہ پر دہشت گردی، انتخابی جلوسوں اور جلسوں میں حملوں اور سیاسی رہنمائوں پر قاتلانہ حملوں کا خطرہ تو موجود تھا اور اس سلسلے میں حکومت نے خفیہ ذرائع کی اطلاعات کی بنیاد پر صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن اور سیاسی رہنمائوں کو آگاہ بھی کر دیا تھا‘ اس کے ساتھ انہیں احتیاطی اقدامات کا بھی مشورہ دیا گیا تھا لیکن الیکشن کی گہماگہمی میں محتاط رہنا بہت مشکل ہے۔ سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں اور جلوس نکال رہی ہیں‘ اس ماحول میں دہشت گرد بڑی آسانی سے اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ پشاور کے حملے نے اتنا ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ مسلح کارروائیوں سے دہشت گردوں کو وقتی طور پر غیر مؤثر تو بنایا جا سکتا ہے لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے یہ کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی۔ 2014ء میں جاری کردہ نیشنل ایکشن پلان کو بھی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے جن اقدامات کی سفارش کی گئی تھی ان پر کیوں پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو بیرونی سے اندرونی خطرات لاحق ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تساہل، لاپروائی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر عمل درآمد میں ناکامی کی سب سے نمایاں مثال نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کی ہے‘ جس کے بورڈ آف گورنرز کا آج تک اجلاس نہیں ہو سکا۔ حالانکہ نیکٹا کے رولز کے مطابق ہر تین ماہ بعد اس کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار جانی قربانیوں اور بھاری مالی نقصان کے باوجود ہماری حکومتوں کی طرف سے اس کے مکمل تدارک کیلئے مؤثر اور بروقت اقدامات کرنے میں ناکامی افسوسناک ہے۔