"DRA" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی کا الیکشن مینی فیسٹو

عام تاثر کے برعکس ہر انتخابات کے موقع پر کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے مینی فیسٹو کا اعلان ایک اہم اور ضروری اقدام ہے‘ کیونکہ اس کے مطالعے سے نہ صرف ووٹروں بلکہ تمام لوگوں کو بھی کسی سیاسی جماعت کے ویژن‘ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے ادراک‘ سیاسی فلسفے اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تجاویز سے آگاہی ہوتی ہے۔ مینی فیسٹو سے کسی سیاسی پارٹی کی سیاسی سوچ جھلکتی ہے اور قوم اور ملک کو در پیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اس کی حکمت عملی کا پتہ چلتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے 2018ء کے انتخابات کے موقع پر جو مینی فیسٹو جاری کیا ہے اس کے بارے میں سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر پروگرام پر مشتمل ہے‘ اور اس میں پاکستانی عوام کو در پیش تقریباً سبھی سیاسی ‘ سماجی، معاشی اور قانونی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے‘ مثلاً اس میں ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے‘ انفرادی حقوق کا تحفظ فراہم کرنے اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مینی فیسٹو میں پارٹی نے لوگوں سے جو وعدے کیے ہیں‘ پارٹی کے فلسفے آج اور ماضی کے ریکارڈ کے عین مطابق ہیں۔
پیپلز پارٹی پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے روایتی پارٹیوں سے ہٹ کر عوام کے مسائل کی بات کی تھی۔ اسی لیے لوگوں کی اکثریت نے اس کی حمایت کی ۔یہ پیپلز پارٹی تھی جس نے 1973ء کے آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد رکھی اور جب فوجی آمروں نے اس آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کر کے اور نئی شقیں ڈال کر اسے ایک صدارتی آئین میں ڈھالنے کی کوشش کی تو 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت اسے پھر اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا۔ آج کل پھر کچھ عناصر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والی داخلی خود مختاری اور پارلیمنٹ کو ملنے والے اختیارات چھیننا چاہتے ہیں۔ اس لحاظ سے پارٹی مینی فیسٹو میں پارلیمانی جمہوریت کی حمایت اور قانون کی حکمرانی کا دفاع کر کے ایک بروقت اور نہایت اہم اقدام کیا گیا ہے۔ اسی طرح انتخابی مہم میں باقی سیاسی جماعتوں کے برعکس پیپلز پارٹی نے منفی رجحانات یا گالی گلوچ سے بھرپور تقریروں کی مخالفت کی ہے اور اس کی بجائے ملک میں ترقی اور عوام کو در پیش مسائل پر فوکس کرتے ہوئے مثبت طرز عمل اختیار کیا گیا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بھوک اور افلاس کے شکار لوگوں کی تعداد کل آبادی کے ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کا احساس کرتے ہوئے مینی فیسٹو میں بھوک مٹائو پروگرام شروع کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کا ایک شاندار کارنامہ ہے۔ مینی فیسٹو میں اسے نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مزید وسیع کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بھوک سے نجات کیلئے ''فوڈ کارڈ‘‘ جاری کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح صحت کے میدان میں ان لوگوں کو جو مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے‘ صحت کارڈ جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں دنیا کی تمام قوموں کو نئے مسائل کا اور چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ ان مسائل میں موسمی تغیر و تبدیل اور ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات بھی شامل ہیں۔ مینی فیسٹو میں ان مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور ان کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موسمی تغیر و تبدل اور ماحولیات کی خرابی سے پاکستان میں سب سے زیادہ نقصان صوبہ سندھ کو ہوا ہے‘ اور عالمی سطح پر جو طویل المیعاد اندازے لگائے گئے ہیں ان میں بھی یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ آنے والے زمانوں میں جب کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا تو اس سے دنیا کے جو خطے خاص طور پر متاثر ہوں گے ان میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے کچھ اضلاع بھی شامل ہیں۔ اس لیے موسمی تغیر و تبدل کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مینی فیسٹو میں تجاویز کو شامل کر کے پیپلز پارٹی نے ایک مفید کام کیا ہے۔
قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ملک کے اندر امن اور اردگردکے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر مبنی ہوگی۔ انہوں نے مغرب میں افغانستان اور ایران کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات استوار کرنے کے علاوہ بھارت کے ساتھ بھی ایسے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جیسے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان اس وقت تھے۔ اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کر کے جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھی۔ پیپلز پارٹی کا مطمعِ نظر بھی یہی ہے‘اسی لیے مینی فیسو میں بیان کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی جہاں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتی ہے‘ وہاں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے‘ تجارت اور ثقافت کے شعبوں میں تعلقات کو قائم کرنے اور عوامی سطح پر روابط کو فروغ دینے کی بھی حامی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی نے واضح کر دیا ہے کہ یہ تعلقات برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر مبنی ہونے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت کی خاص کارکردگی ایک ایسے شعبے میں ہمیشہ ہمیشہ سے اہم ترجیح رہی ہے اور وہ ہے معاشرے کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ کمزور اور بے اعتنائی کا شکار ہے یعنی عورتیں، بچے اور مذہبی اقلیتیں۔ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت کے دوران میں عورتوں‘ بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں مختلف سہولیات فراہم کرنے کے لیے نہ صرف قانون سازی ہوتی رہی ہے بلکہ ٹھوس اقدامات بھی کئے جاتے رہے ہیں۔ ان تینوں شعبوں میں خصوصی اقدامات کے لیے پارٹی مینی فیسٹو میں تجاویز پیش کی گئی ہیں تا کہ ان تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد‘ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح آگے بڑھنے کے مواقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ مینی فیسٹو میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر بھی خصوصی زور دیا گیا ہے ‘ اس کا مقصد معاشرے کے کمزور طبقات کو تقویت بخشنا ہے۔ سندھ میں عورتوں‘ بچوں اور اقلیتوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت اور لیڈر شپ خصوصاً پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا جو دوستانہ رویہ رہا ہے اس سے یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اگر موقع ملا تو پیپلز پارٹی اس قسم کا کلچر پورے ملک میں پروان چڑھائے گی۔ محبت اور اخوت پر مبنی معاشرتی ماحول کو پورا کرنے کی کوشش ایک ایسی صفت ہے جو پیپلز پارٹی کے باقی تمام پارٹیوں کے مقابلے میں ایک الگ اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مینی فیسٹو میں مذہبی انتہا پسندی کو دہشت گردی کا منبع اور ملک اور قوم کے لیے سب سے زیادہ سنگین خطرہ قرار دے کر پیپلز پارٹی نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے اصل اسباب کی نشاندہی کی ہے اور اس کے سد باب کے لیے درست سمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت صوبوں کے درمیان اعتماد کا فقدان‘ مختلف زبانیں بولنے اور مختلف ثقافت سے تعلق رکھنے والی آبادی کے گروپوں میں شک و شبہات اور محاذ آرائی کی کیفیت دراصل ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں‘ غلط پالیسی اور آئین سے سنگین رو گردانیوں کی وجہ سے موجود ہے۔ پیپلز پارٹی نے بالکل درست مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس کا مستقل علاج ایک ٹروتھ اینڈ ری کانسیلی ایشن کمیشن (Truth and Reconciliation Commission) کے قیام میں مضمر ہے۔ خصوصاً بلوچستان میں ایسے کمیشن کی بہت ضرورت ہے‘ تا کہ پرانے زخموں پر پٹی باندھی جا سکے۔ پیپلز پارٹی نے مینی فیسٹو میں اس قسم کے کمیشن کے قیام کی تجویز دے کر ملک سے محبت کا ثبوت دیاہے اور ایک ایسا راستہ بھی دکھایا ہے جس پر چل کر پاکستان کے مختلف حصوں میں بسنے والے اور رنگ و نسل‘ زبان‘ ثقافت اور مذہب کے لحاظ سے مختلف لوگ محبت‘ اخوت اور اتحاد کی بنیاد پر پاکستانی قوم کا حصہ بن کر ملک میں ترقی‘ سماجی امن اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کر سکیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں