پاکستان اور بھارت، بلکہ پورے جنوبی ایشیا و دیگر ممالک کے پولیٹیکل کلچر کی بہت سی خصوصیات یا خامیاں مشترک ہیں۔ ان میں صحیح وقت پر کسی مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی‘ اور عدم توجہی سرفہرست ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ پیدا ہو جائے بجائے اس کے کہ اس کی طرف فوری توجہ دی جائے تا کہ مزید پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں، شتر مرغ جیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ اس امید پر کہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا‘ یا اس کا بوجھ آئندہ حکومتوں کے اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بھارت میں اسی نوعیت کا ایک مسئلہ، ملک کے شمال مشرق میں واقع قبائلی ریاست آسام کا ہے۔ آسام کا مسئلہ اپنے مختلف مضمرات کے ساتھ پچھلی صدی کے اوائل سے ہی چلا آ رہا ہے۔ لیکن 2016ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد سے وزیر اعظم مودی نے آسام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ملکی تارکینِ وطن کے خلاف پالیسی کو اختیار کرکے ریاست میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا۔ اگلے سال مئی میں پارلیمانی انتخابات میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے اور بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بھارت میں سے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو نکال دیا جائے گا۔ اس کی ابتدا آسام سے کر دی گئی ہے کیونکہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کا ہے۔
بی جے پی کی حکومت نے آسام میں جائز اور قانونی شہریوں کی نشاندہی کیلئے ایک نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ تمام لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے کوائف یعنی آسام میں شہریت ثابت کرنے کیلئے دستاویزات کے ساتھ‘ اس رجسٹر میں اپنا نام درج کرانے کیلئے درخواست دیں۔ اس رجسٹر میں صرف ان لوگوں کا بطور شہری نام درج کیا جائے گا‘ جو 1971ء سے پہلے یہاں مقیم تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اس رجسٹر میں نام لکھوانے کیلئے تین کروڑ انتیس لاکھ شہریوں نے درخواستیں جمع کرائیں۔ ان میں سے بھاری اکثریت آسام کی شہریت کیلئے مقرر کردہ شرائط پوری کرتی ہے اس لیے ان کا لسٹ میں نام آ گیا ہے لیکن 40-50 لاکھ ایسے ہیں جن کا نام اس لسٹ میں نہیں آیا۔ ان کی اکثریت بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کی ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور انہیں فوراً آسام سے نکل جانا چاہئے‘ ورنہ زبردستی نکال دیا جائے گا‘ بلکہ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے رہنمائوں‘ جن میں کئی پارلیمنٹ کے رکن شامل ہیں نے کہا ہے کہ اگر بنگالی، آسام سے نکلیں گے تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔ بی جے پی حکومت نے ان اقدامات پر اپوزیشن جماعتوں خصوصاً کانگریس اور جنوبی بنگال میں برسر اقتدار ممتا بینرجی کی ترینامول کانگریس نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ممتا بینرجی نے وزیر اعظم مودی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بی جے پی کی اس پالیسی سے بھارت خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ اسی طرح کانگرس کے صدر راہول گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ یونین گورنمنٹ فرانسیسی طیاروں ''رافیل‘‘ کی خرید میں مبینہ کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے آسام میں لسانی بنیادوں پر فساد کروانا چاہتی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی کی نظریں مغربی بنگال پر ہیں جہاں کچھ عرصہ بعد ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ 2016ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے مودی لہر کے تحت مغربی بنگال میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی‘ لیکن ناکام رہی‘ مگر ووٹوں کے تناسب میں اسے پہلے کے مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ بی جے پی مغربی بنگال میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتی ہے جو اس نے بھارت کے دیگر حصوں میں استعمال کرکے کامیابی حاصل کی‘ یعنی ہندوئوں میں انتہا پسند ہندو قوم پرستی کے جذبات کو ابھار کر ان کی حمایت حاصل کرنا۔ قدرتی اور معدنی وسائل مثلاً چائے، ٹمبر، لوہا اور کوئلہ سے مالا مال ہونے کے باوجود آسام میں غربت اور بے روزگاری عام ہے اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ آزادی کے بعد بھارت کی ہر مرکزی حکومت نے ملک کے سرمایہ دارانہ طبقات کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے آسام کے صرف قدرتی اور معدنی وسائل کو لوٹا، مگر آسام کے عوام کی حالت سدھارنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اسی وجہ سے بھارت کے شمال مشرق میں واقع دیگر ریاستوں کی طرح آسام میں بھی علیحدگی پسند تحریک نے جنم لیا۔ آزادی کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا‘ مگر بھارت کے حکمران طبقات نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اس سیاسی تحریک کو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر قوم پرستانہ تحریک میں بدل دیا۔ جس سیاسی پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا‘ وہ بی جے پی ہے اور تارکینِ وطن کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی نے پورے جوش و خروش سے آسام میں تارکین وطن کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ بی جے پی کی اس مہم کا خصوصی نشانہ مسلمان ہیں‘ جو آسام کی کل آبادی کا تقریباً 35 فیصد ہیں۔ جس طرح امریکی صدر ٹرمپ نے امریکہ کی تمام سابقہ لبرل اقدار کو پائوں تلے روندتے ہوئے تارکین وطن کو امریکہ سے نکالنے کیلئے امریکی آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں، بالکل اسی طرح بی جے پی نے بھارتی آئین میں سیکولر نظریئے اور اقلیتوں کو دیئے گئے حقوق کی ضمانت کی پروا کئے بغیر آسام میں بنگالی مسلمانوں کی موجودگی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی مڈل کلاس کو درپیش مسائل مثلاً بیروزگاری کی تمام تر ذمہ داری امریکہ میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن پر ڈال دی‘ اور اس کی آڑ میں اس نے ہزاروں تارکین وطن کو ملک سے نکالنا شروع کر دیا‘ اسی طرح مودی 2014ء کے انتخابات کے موقعہ پر بھارتی نوجوان سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں اپنی ساری ناکامی بھارتی تارکینِ وطن خصوصاً بنگالی تارکینِ وطن پر ڈالنا چاہتا ہے‘ اور اس کی بنیاد پر 2019ء کے انتخابات میں خصوصاً مغربی بنگال اور ارد گرد کے علاقوں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ این آر سی صرف آسام نہیں بلکہ پورے بھارت میں تیار کیا جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن بھارت کے ہر حصے یعنی شہروں میں موجود ہیں اور صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سکیورٹی وجوہ کی بنا پر بھی ان کو بھارت سے نکالنا ضروری ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے ابھی سے برمی مسلمانوں ''روہنگیا‘‘ تارکین وطن کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بھارت میں 16 ہزار ''روہنگیا‘‘ تارکینِ وطن موجود ہیں‘ لیکن بھارتی حکومت کے دعوے کے مطابق ان کی اصل تعداد اس سے تین گنا ہے اور اکثریت بغیر اجازت یا ضروری دستاویزات کے ٹھہری ہوئی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنمائوں نے انہیں اور بنگالی تارکینِ وطن کو نکالنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تو اعلان کیا ہے کہ بی جے پی بنگال میں برسر اقتدار آ کر وہاں بھی این آر سی تیار کرے گی۔ یاد رہے کہ ماضی میں بی جے پی نے مغربی بنگال میں بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کے خلاف ایک عرصے تک مہم چلائی تھی اور انہیں سکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیش کو بھارت کے لیے پاکستان سے بھی زیادہ خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ بی جے پی کی اس مہم کے خلاف کانگرس اور ترینامول کانگرس بند باندھنے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اس سے ہندوئوں کے مذہبی جذبات ابھار کر بی جے پی مغربی بنگال اور اس علاقے میں ان ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے جہاں ابھی تک غیر بی جے پی حکومتیں قائم ہیں۔ بی جے پی کی اس مہم کے خلاف ممتا بینرجی نے راہول گاندھی اور سونیا گاندھی سے ملاقات کی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطہ قائم کیا ہے‘ مگر بھارتی میڈیا مودی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس سے حوصلہ پا کر مودی حکومت نے اپوزیشن پر غیر قانونی تارکینِ وطن کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے‘ بھارت کے مشرقی حصوں میں اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کی رفتار تیز کر دی ہے۔