وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی حکومت خارجہ پالیسی کی تشکیل میں عوام کی رائے کو پوری پوری اہمیت دے گی اور اس عمل میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس وقت چونکہ پاک، امریکہ تعلقات ایک گرما گرم موضوع ہے۔ اس لیے اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے جو بھی اقدامات کئے جائیں گے، پہلے عوام اور ان کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس فقرے پر خصوصی طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کی وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر گفتگو کے نتیجے میں وفاقی حکومت کے صلاح مشورے کے بعد وزیر خارجہ قریشی نے جو بیان دیا تھا اس میں انہوںنے کہا تھا کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکی خدشات اور ضروریات کا خیال کرنا پڑے گا۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کیلئے چند ضروری اقدامات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان میں سب سے اہم افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے پریشر کا استعمال ہے۔ چونکہ ان اقدامات سے پاکستان کے اندر بھی ردِ عمل پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی عوام اور عوامی نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری بات یعنی یہ کہ خارجہ پالیسی اب پارلیمنٹ میں تشکیل پائے گی، اور عوامی رائے کو اس عمل میں خصوصی اہمیت دی جائے گی‘ جتنی اہم ہے‘ اتنی ہی دلچسپ بھی ہے۔ اس سے پہلے وزیر خارجہ فارن آفس کے ایک دورے کے دوران کہہ چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی اب یہاں بنے گی۔
جناب شاہ محمود قریشی پہلے بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ ماضی میں خارجہ پالیسی کہاں اور کیسے تشکیل پاتی رہی۔ 1950ء کے عشرے میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے علاوہ اس کی سرپرستی میں قائم ہونے والے دفاعی معاہدوں‘ سیٹو اور معاہدہ بغداد (بعد میں سنٹو) میں شرکت اختیار کی‘ لیکن ایسا کرنے سے قبل نہ عوام اور نہ ہی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا۔ جہاں تک عوامی رائے اور خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو پاکستان کی پوری تاریخ میں پہلی اور آخری دفعہ جب اس کو خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی اجازت دی گئی‘ وہ 1956ء کا سویز بحران تھا۔ جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصری حکومت کو دریائے نیل پر ''اسوان ڈیم‘‘ کی تعمیر کیلئے پیسے کی ضرورت تھی۔ عالمی بینک نے پہلے اس منصوبے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کی ہامی بھری‘ لیکن بعد میں جب صدر ناصر نے سابقہ سوویت یونین اور اس کے حلیف کمیونسٹ ممالک کی طرف جھکائو کا اظہار کیا، تو امریکہ کے اشارے پر بینک نے مصر کو رقم دینے سے انکار کر دیا۔ صدر ناصر نے فنڈز حاصل کرنے کیلئے بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو ملانے والی مصنوعی آبی شاہراہ‘ جسے نہر سویز کہتے ہیں‘ کو جولائی 1956ء میں قومی ملکیت میں لے لیا۔ اور اسے کنٹرول کرنے والے برطانوی اور فرانسیسی عملے کو نکل جانے کا حکم دے دیا۔ رد عمل کے طور پر برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا اور یوں عربوں اور اسرائیل کے درمیان دوسری جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیلی فوجوں نے مصر کے علاقے غزہ اور صحرائے سینائی پر قبضہ کر لیا‘ جبکہ فرانسیسی اور برطانوی افواج نے چھاتہ بردار افواج اتار کر پورٹ سعید پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت پاکستان میں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی حکومت تھی‘ جنہوں نے مصر کا ساتھ دینے کی بجائے، فرانس اور برطانیہ کے مؤقف کی حمایت کی‘ کیونکہ یہ دونوں ممالک معاہدہ بغداد میں پاکستان کے حلیف تھے۔ پاکستان میں سہروردی حکومت کی خارجہ پالیسی کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف جلوس نکالے گئے‘ اور وزیر اعظم سہروردی کو اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ واحد موقعہ ہے جب کسی حکومت کو عوامی رائے عامہ کے دبائو کے تحت خارجہ پالیسی تبدیل کرنا پڑی۔ اس کے بعد خواہ فوجی حکومت ہو یا سویلین حکومت کا دور ہو، خارجہ پالیسی کو عوام اور عوامی نمائندوں کیلئے شجرِ ممنوعہ قرار دیا جاتا رہا۔
ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے آمریت قائم کی اور سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایک اور دو طرفہ سکیورٹی پیکٹ کرکے پاکستان کیلئے امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہونے کا شرف حاصل کیا۔ مشہور وکیل منظور قادر ان کے وزیر خارجہ تھے‘ اور ان کے عہد میں پہلی دفعہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کیلئے چین کی درخواست کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
1960ء کی دہائی کے وسط کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ کی دفاعی معاہدوں میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ 1950ء کی دہائی میں دفاعی معاہدوں کی مخالفت زوروں پر تھی۔ خصوصاً مشرقی پاکستان میں اس کی سب سے زیادہ مخالفت پائی جاتی تھی۔ 1954ء کے صوبائی انتخابات میں منتخب ہونے والی مشرقی پاکستان اسمبلی نے اکثریتی رائے سے دفاعی معاہدوں میں پاکستان کی شرکت کی مخالفت کرتے ہوئے اس سے علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا۔ اکثر تبصرہ نگاروں کی رائے ہے کہ 1958ء میں سکندر مرزا اور ایوب خان کی طرف سے آئین کی منسوخی اور مارشل لاء کے نفاذ کی سب سے بڑی وجہ یہ خوف تھا کہ آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں پاکستان میں ایسی سیاسی پارٹیوں کے برسر اقتدار آنے کا خطرہ تھا جو پاکستان کی دفاعی معاہدات میں شرکت کی مخالف تھیں۔ ایوب خان‘ جو کہ پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ تھے، ان دفاعی معاہدوں میں ملک کی شرکت کا کریڈٹ لیتے تھے، اور اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں کیا ہے۔ چونکہ پاکستان پر ایک عرصہ تک فوج کی براہ راست اور بالواسطہ حکومت رہی اور ملک منتخب پارلیمنٹ سے محروم رہا‘ اس لئے پالیسی سازی کے عمل میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا کردار نہ ہونے کے برابر رہا ہے؛ تاہم پاکستان کے چوتھے فوجی حکمران یعنی جنرل (ر) مشرف کے دورِ اقتدار کے خاتمہ اور پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت (2008-13ئ) کے آغاز پر ملک کے سیاسی نظام اور پالیسیوں میں پارلیمنٹ کے کردار پر زورِ دیا جانے لگا۔ اس دور میں 17ویں آئینی ترمیم ختم کرکے 18ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی۔ اس ترمیم‘ جو 2010ء میں آئین کا حصہ بنی، کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق مرکز سے صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی ہے۔ دوسرا حصہ ہیڈ آف دی سٹیٹ یعنی صدر سے ہیڈ آف دی گورنمنٹ یعنی وزیراعظم کو اختیار کی منتقلی سے متعلق ہے۔ دیگر الفاظ میں اٹھارہویں آئینی ترمیم نے پارلیمنٹ کے وہ تمام اختیارات‘ جو سترہویں اور اس سے پہلے جنرل ضیاء کے دور میں آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت صدر کو منتقل کر دیئے تھے‘ واپس پارلیمنٹ کے سپرد کر دیئے گئے۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر آتے رہے ہیں اور عوام انہیں واپس دھکیلتے رہے ہیں‘ لیکن 2008ء میں جنرل مشرف کے دور کے خاتمہ کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور کی خصوصی بات یہ تھی کہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت تھی۔ بلکہ دونوں پارٹیاں کچھ عرصہ کیلئے مرکز اور صوبہ پنجاب میں ایک دوسرے کی کولیشن پارٹنر بھی تھیں۔ اس لئے 2008ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنے پر پہلے ادوار کے مقابلے میں زیادہ مائل نظر آئی۔ اس دور میں پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دور میں (وزیراعظم یوسف رضا کا دور وزارت) پارلیمنٹ میں پہلی دفعہ خارجہ پالیسی پر بحث ہوئی اور اس کی طرف سے حکومت کو گائیڈ لائنز دی گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی پارلیمنٹ خصوصاً اس کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں خارجہ تعلقات سے متعلقہ امور پر گرما گرم بحث ہوتی رہی اور ایوان کی طرف سے اہم سفارشات بھی جاری کی جاتی رہیں۔ ان میں دو سال قبل یمن میں پاکستانی فوج نہ بھیجنے کے بارے میں پارلیمنٹ کی ایک قرارداد بھی شامل ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کے سب سے اہم ادارے یعنی پارلیمنٹ میں اب خارجہ پالیسی کو ہاتھ میں لینے کا رجحان تقویت پکڑتا جا رہا ہے، اور کوئی بھی حکومت اب اسے نہیں روک سکتی۔ کیونکہ دنیا کی تشکیل، خصوصاً پاکستان کے ارد گرد جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کا براہ راست اثر پاکستان کی اندرونی سیاست پر پڑ رہا ہے۔ اس لیے اب خارجہ پالیسی کی تشکیل کے عمل پر پارلیمنٹ کا کنٹرول ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔