"DRA" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت کا پارلیمنٹ سے خطاب

پارلیمانی نظام حکومت میں صدر یا سربراہ مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب ایک روایت ہے اور رسمی کارروائی بھی‘ لیکن پاکستان میں یہ ایک آئینی تقاضا ہے۔ 1973ء کے آئین کے مطابق ہر عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ضروری ہے۔ اسی طرح ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر کیلئے پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب لازمی ہے۔ چونکہ برطانوی طرز کے پارلیمانی نظام میں صدر کا بھی حکمران پارٹی سے تعلق ہوتا ہے‘ اور صدر کے حتمی خطاب کو کابینہ کی منظوری حاصل ہوتی ہے‘ اس لئے عام طور پر صدر کی تقریر دراصل حکومت ہی کے ایجنڈے اور پالیسیوں کی وضاحت پر مشتمل ہوتی ہے۔ صدر کی تقریر میں یا تو حکومت کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے، یا آئندہ کیلئے حکومت نے جو پالیسی اہداف مقرر کئے ہوتے ہیں‘ صدر اپنی تقریر کے ذریعے عوام کو اُن پر اعتماد میں لیتے ہیں۔ اس طرح عمومی طور پر صدر کا خطاب حکومتی پالیسیوں کا دفاع اور اُن کی تشریح پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود صدر کے خطاب کی پارلیمانی سیاست میں ایک خصوصی اہمیت ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان پارلیمانی جمہوریت کے علاوہ ایک وفاقی ریاست بھی ہے، اس لیے صدر کے خطاب سے پارٹی سیاست سے ہٹ کر کچھ توقعات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں: ایک یہ کہ اپنی پارٹی کی حمایت سے کامیاب ہونے کے باوجود منتخب ہونے کے بعد صدر پارٹی سے بالاتر حیثیت اختیار کر جاتا ہے‘ کیونکہ صدر کا عہدہ سیاسی نہیں، نہ ہی صدر حکومت یا کسی ایک پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے‘ بلکہ وہ پوری قوم کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر وفاق کا نمائندہ اور اس کی وحدت کی علامت ہوتا ہے۔ اُسے نہ تو کسی ایک سیاسی پارٹی یا حکومت کے مفادات کی ترجمانی کرنی ہوتی ہے اور نہ ہی اُس نے کسی ایک یا مخصوص وفاقی یونٹ کی نمائندگی کرنی ہوتی ہے‘ بلکہ اُس کا فرض ہے کہ وہ پارٹی پالیٹکس سے بالاتر ہو کر تمام سیاسی پارٹیوں اور تمام وفاقی یونٹس کے مفادات کی ترجمانی کرے اور جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، صدر کیلئے ضروری ہے کہ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں کا حوالہ دے کر ناصرف پوری قوم کے سامنے ایک جائزہ پیش کرے بلکہ حکومت کیلئے ایک سمت مقرر کرے اور جہاں کہیں ضروری ہو حکومت کو مشورہ اور گائیڈ لائن بھی مہیا کرے۔
اس معیار پر اگر پرکھا جائے تو پاکستان کے نو منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے رسمی خطاب سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ پاکستانی قوم کے نمائندہ ہونے کی بجائے حکمران پارٹی کے ترجمان کی حیثیت سے بول رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اس وقت پاکستان کو جن خطرناک اور نازک چیلنجوں کا سامنا ہے اُن کی نشاندہی کرکے عوام کو اعتماد میں لینے کی بجائے، صدر نے حکمران جماعت کی وہی باتیں دھرائیں‘ جو الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران دہرائی جاتی رہیں۔ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج کرپشن ہے‘ اور اس سے نمٹنے کیلئے احتسابی اداروں کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ پاکستان کا ہر شہری اس بات سے متفق ہے کہ کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو ہماری سیاست، معیشت اور معاشرتی قدروں کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے اور ایک صحت مند معاشرے، خوشحال معیشت اور مضبوط جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اِسے جڑوں سمیت نکال پھینکا جائے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انسدادِ کرپشن اور احتساب کا عمل سب پر یکساں اور بلا امتیاز لاگو کیا جائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کرپشن کے نقصانات اور اس کے سدِباب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے قوم کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی کہ احتساب کے عمل کو سیاسی مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا‘ اور یہ بلا امتیاز ملک کے ہر فرد اور ہر ادارے پر لاگو کیا جائے گا۔ جسے ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کہتے ہیں‘ اس کا تقاضا ہے کہ احتساب کے عمل کو سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق سب پر لاگو کیا جائے۔ اس وقت پاکستان کو اگر سب سے زیادہ خطرناک چیلنج کا سامنا ہے تو وہ معیشت کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں سرکاری افسروں سے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ ملک کا خزانہ خالی ہے‘ اور حکومت کے پاس امورِ مملکت چلانے کے لیے پیسے نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن بڑھ چکا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صدرارتی خطاب میں اس چیلنج کی طرف حکومت کی توجہ دلانی چاہئے تھی۔ مشورہ دیا جانا چاہئے تھا کہ حکومت معیشت کی صحت بحال کرتے وقت عوام کو اُن کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ کرے‘ کیونکہ عوام کی ایک بھاری اکثریت پہلے ہی غربت کی گہرائیوں میں پھنسی ہوئی ہے، مزید ٹیکس برداشت نہیں کر سکتی۔ صدرِ مملکت نے بجا طور پر مُلک کے نوجوان طبقے‘ جو کہ آبادی کے 60 فیصد حصِے پر مشتمل ہے، کو بیروزگاری کی شکل میں درپیش مسئلے کا ذکر کیا‘ لیکن انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ آئندہ پانچ برسوں میں اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے گا؟ اور قوم خصوصاً نوجوان طبقے نے نئی حکومت سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، وہ کیسے پوری کی جائیں گی؟ صدرِ مملکت نے اپنے خطاب میں قومی اتحاد، قومی یک جہتی اور باہمی تعاون پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت ایک دو راہے پر کھڑا ہے‘ اور ان قدروں کی وطنِ عزیز کو جتنی اب ضرورت ہے شاید ہی اس سے پہلے کبھی ایسی ہو۔ اُن چند عناصر کے مذموم عزائم کا ذکر بھی کیا جانا چاہئے تھا، جو پاکستان میں جمہوریت‘ خصوصاً وفاقی، پارلیمانی جمہوریت کے خلاف افواہوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔
اس قابلِ مذمت مہم میں سیاست دانوں، سیاسی پارٹیوں، سیاسی اداروں، پارلیمانی اور وفاقی جمہوریت کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ مُلک کی منتخب پارلیمنٹ نے 2010ء میں متفقہ طور پر اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی تھی اور اس طرح آئین سے اُن تمام غیر جمہوری شقوں کو جنہیں ڈکٹیٹروں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر یک طرفہ طور پر شامل کیا تھا، نکال کر پاکستان میں ایک صحیح پارلیمانی نظام اور صوبائی خود مختاری کے ساتھ ایک وفاقی ریاست قائم کی تھی۔ لیکن گزشتہ چار سال کی سیاسی انارکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ عناصر کی جانب سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے یا ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت مشترکہ وفاقی فنڈ سے صوبوں کو ملنے والی رقوم کو کم کرنے کی مہم چلائی جاتی رہی ہے‘ بلکہ بعض صورتوں میں صوبوں کو مزید رقوم کی منتقلی روک دی گئی۔ اس سے صوبوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ صدرِ مملکت چونکہ وفاق اور وفاق میں شامل صوبوں کے نمائندہ ہیں‘ اس لیے انہیں اپنے خطاب میں دوٹوک اور واشگاف الفاظ میں 1973ء کے آئین کے تحت قائم شدہ سیاسی نظام کی حفاظت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حاصل حقوق کے تحفظ کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور اُن کی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری ریاست اس اہم فریضے کی انجام دہی میں ناکام محسوس ہوتی ہے۔ صدرِ مملکت کو اپنے خطاب میں حکومت پر زور دینا چاہئے تھا کہ اُس کے تمام پالیسیوں اور اقدامات کا مقصد پاکستانی عوام کے جان و مال کا تحفظ اور اُن کی خوشحالی کی ضمانت دینا ہے۔ مُلک میں انتہا پسندی، تشدد، عدم برداشت، فرقہ وارانہ تعصّب اور لاقانونیت کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے عوام میں تشویش کی لہر ہی نہیں دوڑا دی‘ بلکہ ملکی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ان رجحانات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے معاشرے میں ہر طبقے اور ہر فرقے کے افراد کو یقین دلانا چاہئے تھا کہ حکومت ہر حالت میں اُن کے جان و مال اور حقوق کا تحفظ کرے گی اور قانون کی بالادستی اور حکومت کی رِٹ قائم کرے گی۔ جب یہ کہا گیا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں سے پُرامن تعلقات کا خواہاں ہے تو اُس سمیت کی نشاندہی بھی کی جانی چاہئے تھی‘ جس میں چل کر حکومت پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرکے، واقعی ایک پُرامن اور باہمی تعاون پر مبنی ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں