موجودہ حکومت کے جن اقدامات کو مثبت قرار دیا جا سکتا ہے‘ اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد باری باری تمام وفاقی یونٹس کا دورہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ کا دورہ کیا۔ اس سے قبل وہ کراچی، پشاور اور لاہور کا دورہ کر چکے ہیں۔ صوبائی دارالحکومتوں کے ان دوروں سے نہ صرف ایک متحرک قیادت کی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ اس سے وفاق اور وفاقی یونٹس کے مابین رشتے بھی مضبوط ہوتے ہیں‘ کیونکہ مرکز کو موقع پر صوبوں کے معاملات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے‘ جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت اہم قومی مسائل کے بارے میں صحیح پالیسی تشکیل دینے کی پوزیشن میں آتی ہے۔ مثلاً کوئٹہ میں وزیر اعظم عمران خان نے نا صرف صوبائی کابینہ کے ارکان سے خطاب کیا، اپنی پارٹی کی صوبائی قیادت سے ملاقات کی‘ اور سدرن کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا‘ بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا بھی ایک وفد شامل تھا‘ جس کی قیادت پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کر رہے تھے۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اہم قومی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ بلوچستان کی محرومی اور پس ماندگی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر ڈالی ہے۔ اُن کے خیال میں یہ پالیسیاں صحیح ترجیحات پر مبنی نہیں تھیں۔ اسی لئے وزیر اعظم نے کہا کہ اُن کی حکومت اب صوبے میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر زور دے گی تاکہ بلوچستان کے نوجوان ترقی کے قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے لائق تحسین ہونے سے کسی کو اختلاف نہیں‘ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کے حصول کیلئے جس قسم کا ماحول ضروری ہے، اور اسے پیدا کرنے کیلئے جس حکمت عملی یا اقدام کی ضرورت ہے، وزیر اعظم کے خطاب میں اُن کا ذکر موجود نہیں۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے ''سب ٹھیک ہے‘‘ پر مبنی رپورٹس اور بریفنگز سے قطع نظر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا‘ اور جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے اہم صوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ اس کا ثبوت آئے دن بم دھماکوں، سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر حملوں‘ اہم قومی تنصیبات کے خلاف تخریبی کارروائیوں اور ان کے رد عمل کے طور پر سرچ آپریشن، پولیس مقابلوں اور پھر ویران جگہوں پر گولیوں سے چھلنی نوجوانوں کی لاشوں کی برآمدگی کی صورت میں دستیاب ہے۔ اس کے باوجود اگر دعویٰ کیا جائے کہ بلوچستان میں سکیورٹی کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے تو تعجب کے علاوہ اور کس چیز کا اظہار کیا جا سکتا ہے؟
سابقہ حکومتوں نے بلوچستان کا اصل مسئلہ نظر انداز کرکے کبھی اسے محض لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ اور کبھی صرف سرحد پار سے تخریب کاری کا شاخسانہ قرار دیا۔ یہ عوامل اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگر بلوچستان کا مسئلہ ان سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے اور اس میں تاریخی، سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی کئی عوامل کارفرما ہیں۔ اس مسئلے کا ادراک کرنے کیلئے ایک مکمل اور ہمہ گیر اپروچ کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے نہ پہلے موجود تھی اور نہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ میں اپنے خطاب میں صوبے اور صوبے کے عوام کو درپیش متعدد مسائل پر بات کی‘ مگر بلوچستان جس آگ میں سُلگ رہا ہے اُس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ تشدد اور دہشت گردی کی وجہ سے جو لوگ گھر بار چھوڑ کر صوبے سے نکل جانے پر مجبور ہوئے ہیں وہ جلد واپس آ جائیں گے۔ بلوچستان کے مسئلے کو اگر صرف لاء اینڈ آرڈر کے تناظر میں دیکھا گیا‘ یا یہ سمجھا گیا کہ اسے کسی بڑے مالی پیکیج کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، تو یہ خام خیالی ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا تو 2006ء میں چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بلوچستان کا مسئلہ سمجھنا ہو تو اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے اہم سٹیک ہولڈرز کے بیانات اور مسئلے کے حل کے لئے اُن میں درج نکات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ جنرل مشرف نے مسئلہ بلوچستان کو خالصتاً سکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی کوشش کی‘ اور اس کوشش میں انہوں نے بلوچستان کے بزرگ سیاستدان اور ایک اہم قبیلے کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کو قتل کر ڈالا۔ جنرل مشرف سمجھتے تھے کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل سے بلوچستان کی تحریکِ مزاحمت ختم ہو جائے گی‘ لیکن سب جانتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل سے اس تحریک کی شدت میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح اگر صوبے کا مسئلہ صرف ترقیاتی پیکیج سے حل ہو سکتا، تو یوسف رضا گیلانی کے دور میں ''آغاز حقوق بلوچستان‘‘ کے تحت اربوں روپے کے پیکیج سے یہ مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔ اگر بلوچستان کا مسئلہ محض بیرونی تخریب کاری کا نتیجہ ہے یا اگر یہ صرف چند افراد کی سرکشی کی پیداوار ہوتا تو ڈاکٹر مالک بلوچ کو ڈھائی برس تک اس کے حل تلاش کرنے کی جدوجہد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر مالک کی کوششوں کی وجہ سے بلوچستان کا مسئلہ اپنے حل کے بہت قریب پہنچ گیا تھا‘ لیکن عین درمیان میں ڈاکٹر مالک کی جگہ میر ثناء اللہ زہری کو صوبے کا چیف منسٹر بنا کر اس مومینٹم کو ختم کر دیا گیا۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف کسی جانب سے کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ حالانکہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال پہلے ہی کی طرح مخدوش ہے۔ حکومتی دعووں کے برعکس بلوچستان کے کئی علاقے نوگو ایریاز بن چکے ہیں‘ جہاں حکومت کی رِٹ ناپید ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس صورت حال سے فائدہ اُٹھا کر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں صوبے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات میں ''داعش‘‘ کے ملوث ہونے کا ثبوت خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد یہ تنظیم افغانستان کے کئی صوبوں میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں افغانستان میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری ''داعش‘‘ لے چکی ہے۔ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ''داعش‘‘ کی موجودگی، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کیلئے سخت خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ ابھی تک پاکستان میں ''داعش‘‘ کے باقاعدہ سٹرکچر یا تنظیمی ڈھانچے کی موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا لیکن مقامی دہشت گرد، فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں سے اس کے رابطوں کا پتہ چلا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی تمام تر توجہ بلوچ قوم پرست عناصر کا قلع قمع کرنے پر ہونے کی وجہ سے ''داعش‘‘ اور مقامی انتہا پسند گروپوں کا آپس میں گٹھ جوڑ صرف صوبہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں تشدد کے فروغ اور عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ ان خطرناک امکانات کا سبب بلوچستان کے مسئلے کو اُس کے صحیح تناظر میں ایک درست حکمت عملی کے تحت حل کرنے میں ناکامی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی کا نعرے لے کر اقتدار میں آئی ہے۔ اس تبدیلی کا اظہار بلوچستان میں ہونا چاہئے‘ جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ لیکن وزیر اعظم نے صوبے کے سب سے زیادہ سنگین مسئلے یعنی گمشدہ افراد کے بارے میں خاموشی اختیار کرکے بلوچوں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے جمہوری اور انصاف پسند حلقوں کو بھی مایوس کیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے گمشدہ افراد کے لواحقین انصاف کی خاطر ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں لیکن جھوٹی تسلیوں کے سوا اُنہیں کچھ نہیں ملا۔ اس مسئلے کی وجہ سے بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی طور پر باغی ہو کر قومی ترقیاتی دھارے سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں صوبے کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ سی پیک کے بارے میں بلوچستان کی شکایتوں کو دور کیا جائے گا اور اس کیلئے اُن کی حکومت اس منصوبے کا ازسر نو جائزہ لے رہی ہے۔ مگر اصل کام تو بلوچستان کے عوام خصوصاً نوجوان طبقے کے تحفظات اور شکایات کو دور کرنا ہے‘ جن کی وجہ سے اُنہوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ اگر یہ نہ ہوا تو وزیر اعظم کا ہیومن ڈویلپمنٹ کا منصوبہ کیسے کامیاب ہوگا؟ قومی سطح پر اب یہ بات ایک متفقہ رائے کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آ رہی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو محض ایک لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہ سمجھا جائے، بلکہ تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اس کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔