پاکستانی میڈیا میں چھپنے یا نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے مالی امداد کے پیکیج کے لیے جن شرائط کو حکومت پاکستان کے سامنے رکھا ہے اُن میں این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن) ایوارڈ کے تحت وفاقی فنڈز سے صوبوں کو ملنے والے حصے میں کمی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اس وقت ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت صوبوں اور مرکز کے درمیان فنڈز کی تقسیم علی الترتیب 57.5 اور 45.5 فیصد کے فارمولے کی بنیاد پر عمل میں آ رہی ہے۔ ساتواں این ایف سی ایوارڈ 2010ئ‘2011ء سے نافذ العمل ہے‘ مگر اس فارمولے میں مرکز کے حامیوں کی طرف سے تین وجوہ کی بناپر تبدیلی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک یہ کہ اسی تناسب سے کل محصولات سے حاصل شدہ آمدنی کو مرکز اور صوبوں کے درمیان تقسیم کرنے سے مرکز کے پاس بہت کم رقم بچتی ہے ‘جو اس کی ا ہم ذمہ داریوں مثلاً دفاع اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے ناکافی ہے۔ دوسرا‘ صوبوں کو ملنے والا حصہ اُن کی استعداد اور اس سے مناسب طور پر فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے صوبوں میں فنڈز کا ضیاع ہوتا ہے اور کرپشن جیسے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ تیسرا‘ صوبوں کو مرکز سے اتنی بڑی رقوم کی منتقلی کے بعد اُن میں اپنے ذرائع سے فنڈز پیدا کرنے کی ترغیب ختم ہو جاتی ہے۔
گزشتہ تقریباً سات آٹھ برسوں سے مختلف حلقے اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس فارمولے پر نظرثانی ہونی چاہئے ‘کیونکہ اس سے پاکستان کا دفاع کمزور ہونے کا خدشہ ہے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مرکز کو پیش آنے والی مشکلات بھی اسی وجہ سے ہیں‘ مگر تمام صوبوں کی طرف سے مرکز کے موقف کو مسترد کردیا گیا ہے اور صوبوں کی نظر میں اس فارمولے کے تحت فنڈز کی تقسیم اب بھی صوبوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے‘ کیونکہ ترقیاتی کام اور عوام کی فلاح و بہبود مثلاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں منصوبوں کا قیام صوبوں کی ذمہ داری ہے اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی صوبوں کو مرکز کا زیادہ سے زیادہ ہاتھ بٹانے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ اس لئے ساتویں ایوارڈ کے تحت صوبوں کو مجموعی قومی محاصل سے ملنے والا حصہ ناکافی ہے۔ صوبوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے۔ صوبوں کی طرف سے مرکز کی اس دلیل کو بھی مسترد کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ساتویں ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقوم کو خرچ کرنے کے لیے نہ تو انتظامی انفراسٹرکچر ہے اور نہ صلاحیت۔ صوبوں کی طرف سے مرکز کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصہ کی عمر کے بعد صوبے اب بالغ ہو چکے ہیں اور وہ نہ صرف اپنے ہاں ترقی کے لیے مطلوبہ رقوم کو خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اپنے ذرائع مثلاً تیل اور گیس سے فنڈز بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
ساتواں این ایف سی ایوارڈ 2010ء میں منظور کی گئی اٹھارہویں آئینی تنظیم کا ایک اہم حصہ ہے‘ اس لیے جب کبھی اور جس طرف سے بھی ساتویں ایوارڈ پر نظرثانی کرکے صوبوں کو ملنے والی رقوم میں کمی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو صوبوں کی نظر میں اسے اٹھارہویں ترمیم کے رول بیک کی سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے صوبوں کی طرف سے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی تجویز کی سخت مخالفت کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس پر نظرثانی کی تجویز کی سخت الفاظ میں مخالفت کی گئی ہے۔ اٹھارہویں آئینی تنظیم صرف ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کے تحت مرکز سے صوبوں کو متعدد شعبوں مثلاً صحت، تعلیم، زراعت، لا اینڈ آرڈر، ماحولیات اور زیر زمین پائے جانے والے قدرتی وسائل مثلاً کوئلہ، تیل، گیس اور دیگر معدنیات میں صوبوں کو زیادہ مراعات اور اختیارات منتقل کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے ادوار میں پارلیمنٹ کے جو اہم اختیارات پارلیمنٹ سے چھین کر سربراہِ مملکت کو منتقل کئے گئے تھے‘ یہ پارلیمنٹ کو واپس دے کر1973ء کے آئین کے تحت وفاقی پارلیمانی جمہوریت بحال کر دی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اٹھارہویں آئینی ترمیم یا ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں ردو بدل کی بات کی جاتی ہے تو اسے پاکستان میں پارلیمانی اور وفاقی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ملک میں صدارتی نظام حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے پارلیمانی جمہوریت کے خلاف اور صدارتی نظام حکومت کے حق میں بیانات اور تحریروں کی شکل میں ایک منظم مہم جاری ہے۔ اس میں پاکستان کو درپیش تمام سیاسی اور معاشی مسائل کی ذمہ داری پارلیمانی نظام پر ڈال دی جاتی ہے اور ملک کے پہلے فوجی حکمران ایوب خاں کے صدارتی نظام کو ''سیاسی استحکام اور معاشی ترقی‘‘ کی سنہری مثال قرار دے کر صدارتی نظام کے حق میں عوامی رائے عامہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایوب خاں کے نقشِ قدم پر چل کر پاکستان کے دو اور فوجی حکمرانوں جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف نے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں (17ویں) آئینی ترامیم کے ذریعہ 1973ء کے تحت قائم شدہ پارلیمانی نظام کو صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن 1997ء اور پھر 2010ء میں جمہوری بنیادوں پر منتخب بالترتیب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی طرف سے آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو حذف کر کے پارلیمانی اور وفاقی طرزِ حکومت کو بحال کر دیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ اقدام باقی تمام پارٹیوں کی رضامندی اور تعاون سے کیا تھا۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کو مجموعی قومی اتفاق رائے کی حمایت حاصل ہے اور چونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم اس وفاقی اور پارلیمانی نظام کاسمبل ہے‘ اس لیے جب کبھی اس ترمیم یا اس کے کسی حصے کو تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے ملک میں پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی ریاستی ڈھانچے کے حامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو وفاقی فنڈز میں سے ملنے والے حصہ کو کم کرنے یا اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی آڑ میں دراصل پاکستان میں پارلیمانی وفاقی حکومت کی بجائے صدارتی حکومت اور وحدانی ریاستی ڈھانچے کے قیام کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے صدارتی نظام حکومت کے حق میں پارلیمانی نظامِ حکومت کے خلاف ایک مسلسل اور منظم مہم کے تحت پروپیگنڈا جاری ہے۔ ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم کو قومی مفاد کے منافی قرار دیا جا چکا ہے اور اب جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے بھی اس کے اہم حصے یعنی ساتویں ایوارڈ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو اُن حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے جو پارلیمانی نظامِ حکومت کو ملک میں جمہوریت اور وفاقی ریاست ڈھانچے کو قومی اتحاد اور ملکی سالمیت کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اگر ہم آزادی سے قبل ہندوستان اور آزادی کے بعد پاکستان کی سیاست کا بنظر غائر جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جمہوریت پسند اور محب وطن عناصر کے یہ خدشات بے جا نہیں‘ کیونکہ نا صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں پارلیمانی نظام حکومت پر اتفاق رائے موجود ہے اور یہ اتفاق رائے دن بدن مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں وفاقی ریاستی ڈھانچے کو دیکھ کر نیپال کی وفاقی ریاست قائم کی گئی ہے۔ سری لنکا میں بھی وحدانی ریاست کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی بات ہو رہی ہے‘ اس لئے پاکستان میں وفاقی اور پارلیمانی نظام کو تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک میں موجود قومی اتفاق رائے کے خلاف ہوگی۔