1985ء میں جنوبی ایشیا کے سات ممالک یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ نے علاقائی تعاون برائے ترقی کیلئے ایک تنظیم ''سارک‘‘ (SAARC) قائم کی تھی۔ اس تنظیم کے چارٹر پر دستخط کرتے ہوئے ان سات ملکوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اس خطے سے غربت اور پس ماندگی کو ختم کرنے کے حوالے سے معاشی ترقی اور باہمی تجارت کے فروغ کیلئے آپس میں تعاون کریں گے۔ بعد میں افغانستان بھی ان سات ممالک کی صف میں شامل ہو گیا اور جنوبی ایشیائی ممالک کی اس تنظیم کے ارکان کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ 1990ء کی دہائی میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے شعبے میں بہتر کارکردگی سے متاثر ہو کر کئی ممالک نے اس تنظیم میں آبزرور کی حیثیت سے بھی شمولیت اختیار کر لی۔ ان ممالک میں امریکہ، روس، چین، جاپان، ایران اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ کئی دہائیوں سے تقریباً نیم مردہ حالت میں پڑی رہنے والی ''سارک‘‘ میں زندگی پھر لوٹ آئے گی اور اس میں شامل ممالک کے عوام بھی ''آسیان‘‘ (ASEAN) اور ''یورپی یونین‘‘ (European Union) کی طرح ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار ہو سکیں گے‘ مگر یہ اُمید پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی کیونکہ گزشتہ تین سے زائد برس سے اس کی سالانہ سربراہی کانفرنس نہیں ہوئی۔
سارک کے چارٹر کے مطابق یہ سربراہی کانفرنس ہر سال ہونا لازمی ہے تاکہ سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ لے کر رکن ممالک آئندہ برس کیلئے اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے نئے یا پرانے منصوبوں کو جاری کرنے کے بارے میں فیصلوں کا اعلان کر سکیں۔ لیکن متواتر تین برسوں سے سربراہی کانفرنس نہ ہونے کی وجہ سے اس تنظیم کی نہ صرف کارکردگی پر بُرا اثر پڑا ہے بلکہ اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام چھوٹے ممالک سارک کے اس جمود کو توڑنا چاہتے ہیں‘ لیکن آبادی اور وسائل کے لحاظ سے خطے کے سب سے بڑے ملک‘ بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے اُن کی خواہش پوری نہیں ہو رہی نتیجتاً سارک کے مستقبل کے بارے میں رکن ممالک مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کی کارکردگی پہلے ہی قابل رشک نہ تھی‘ اور اب مسلسل تین سے زائد برس تک غیر فعال رہنے سے اس کا مستقبل مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے رکن ممالک ''سارک‘‘ کے سائے تلے معاشی ترقی اور تجارت کے فروغ کے امکانات سے مایوس ہو کر دیگر خطوں کے ممالک یا علاقائی تنظیموں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ پاکستان وسطی اور مغربی ایشیاء کے ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کو فروغ دینے کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ اس کا ثبوت ''شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ میں اس کی بطور مستقل رکن ملک شمولیت اور ایران، ترکی کے راستے یورپ تک مواصلاتی رابطوں کے قیام کی کوشش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح بھارت کے نزدیک سارک کو فعال بنانے کی بجائے، ہند چینی اور بحرالکاہل کے ارد گرد کے ممالک خصوصاً جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ نہ صرف معاشی اور تجارتی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی تعلقات کا قیام زیادہ اہم ہے۔ اس طرح سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی سارک سے مایوس ہو کر ''آسیان‘‘ اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دے رہے ہیں کیونکہ ان خطوں میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ہے۔
ان حالات میں اب یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ''سارک‘‘ کو فعال بنایا جا سکتا ہے؟ بلکہ اب تو بعض حلقے ''سارک‘‘ کی افادیت پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں اور اس کی موجودہ شکل کو تبدیل کرنے کیلئے متبادل تجاویز بھی پیش کی جا رہی ہیں کیونکہ سارک کے موجودہ ڈھانچے کے تحت علاقائی تعاون اور ترقی کے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے، جو 33 برس قبل ڈھاکہ میں اس کے چارٹر پر دستخط کرتے ہوئے متعین کئے گئے تھے۔ مثلاً تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود سارک کے رکن ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کی شرح اُن کی کل تجارت کے پانچ سے چھ فیصد حصے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ حالانکہ دیگر علاقائی تنظیموں مثلاً ''آسیان‘‘ میں انٹرا ریجن ٹریڈ 35 فیصد اور یورپی یونین میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ان میں سے ایک تو خود ''سارک‘‘ کے ڈھانچے اندر موجود نقائص اور خامیاں ہیں۔ مثلاً رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ اور متنازعہ مسائل کو ''سارک‘‘ فریم ورک سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ مسائل اور تنازعات نہ صرف حل طلب رہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے زیادہ مشکل اور پیچیدہ شکل اختیار کر لی اور رکن ممالک کے درمیان تعاون کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ اس کے علاوہ ''سارک‘‘ چارٹر کی رو سے تنظیم کے پلیٹ فارم سے فیصلے اکثریت کی بجائے اتفاق رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی ''سارک‘‘ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکی‘ کیوں کہ ہر فیصلے کیلئے تمام رکن ممالک کا متفق ہونا ضروری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ''سارک‘‘ کے چارٹر میں یہ شقیں بھارت کے اصرار پر شامل کی گئی تھیں۔ کیوں کہ بھارت کو ڈر تھا کہ تنظیم میں شامل دیگر ممالک کسی بھی متنازعہ مسئلے پر اکٹھے ہو کر بھارت کی مرضی کے خلاف فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے اس نے ایک طرف متنازعہ مسائل کو ''سارک‘‘ کے ایجنڈے سے دور رکھا اور دوسری طرف اکثریت کی بجائے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے پر اصرار کیا۔
سارک کا موجودہ بحران بھی بھارتی رویے ہی کا شاخسانہ ہے۔ 2016 میں اس کی 18ویں سربراہی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کو کرنا تھی‘ لیکن بھارت نے دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے میں تیزی کا بہانہ بنا کر نہ صرف خود شرکت سے انکار کر دیا بلکہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان کو بھی کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ان حالات کی وجہ سے تنظیم کی 18ویں کانفرنس منعقد نہ ہو سکی‘ حالانکہ پاکستان نے اس کے لیے زبردست سفارتی کوششیں کی تھیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بھارتی حکومت سے سارک عمل کو از سر نو شروع کرنے کی درخواست کی۔ پاکستان اس مقصد کیلئے تنظیم کے دیگر ارکان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر بھارت کے ویٹو کی وجہ سے اس مقصد کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ اس سے نمایاں طور پر عیاں ہو جاتا ہے کہ پاک بھارت اختلافات اور کشیدگی سے نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے کے عوام کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر گزشتہ تین دہائیوں میں سارک حقیقی طور ہر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکی، تو اس کی سب سے بڑی وجہ پاک بھارت اختلافات اور تنازعات ہیں۔ اگرچہ اس دوران چند شعبوں میں سارک نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کچھ منصوبے مثلاً تعلیم، صحت، فارکو ٹریڈ اور سمگلنگ کی روک تھام اور سماجی شعبوں میں کچھ منصوبوں کا آغاز کیا ہے، تو سارک عمل کے تعطل کی وجہ سے خطے کے عوام اُن سے پوری طرح مستفید ہونے سے محروم ہیں۔ 2006 سے سارک کا فری ٹریڈ ایریا کا معاہدہ نافذالعمل ہے‘ مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے خطہ اس کے ثمرات سے ابھی تک محروم ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ممبر ممالک کے درمیان تجارت کے اضافے اور تنظیم کے پھلنے پھولنے کے شاندار امکانات موجود ہیں۔ مثلاً عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک بھارت تجارت کو 37 بلین ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔ جبکہ پلوامہ دھماکے کے بعد بھارت کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے قبل یہ تجارت صرف 2 بلین ڈالر تھی۔ اسی طرح بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تجارت کو 300 گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی اور افزائش کے اور بھی مواقع ہیں۔ مگر ان سے صرف اُس صورت فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے جب جنوبی ایشیا کا خطہ کشیدگی سے پاک اور امن کا گہوارہ بن جائے۔