"DRA" (space) message & send to 7575

پارلیمانی بمقابلہ صدارتی نظامِ حکومت

کچھ عرصہ سے ملک میں پارلیمانی اور اس کے مقابلے میں صدارتی نظامِ حکومت پر بحث جاری ہے۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ دونوں جمہوری نظام ہیں۔ فرق صرف اختیارات کے ارتکاز اور انہیں استعمال کرنے کے طریقۂ کار کا ہے۔صدارتی نظام حکومت میں حکومت اور ریاست کی سربراہی ایک شخص یعنی صدر مملکت کے پاس ہوتی ہے۔ صدر بیک وقت ہیڈ آف دی سٹیٹ اور ہیڈ آف دی گورنمنٹ ہوتا ہے جبکہ پارلیمانی نظام حکومت میں حکومت کا سربراہ یعنی ملک کا چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہوتاہے۔ صدارتی نظامِ حکومت میں چونکہ صدر کو ریاست کے علاوہ حکومت (انتظامیہ) کے اختیارات بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں‘ اس لئے اس کے عہدے کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے جیسا کہ امریکہ میں ہے۔ اس کے مقابلے میں پارلیمانی نظامِ حکومت میں صدر کو چونکہ صرف ریاست (مملکت) کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے اور انتظامیہ کے اختیارات اس کے پاس نہیں ہوتے‘ اس لئے اس کا انتخاب براہ راست طریقے سے عمل میں نہیں آتا بلکہ اس کیلئے ایک حلقۂ نیابت (الیکٹوریٹ) تشکیل دیا جاتا ہے جیسا کہ پاکستان میں جہاں پارلیمانی طرز حکومت نافذ العمل ہے۔ صدر کے انتخاب کیلئے سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل حلقۂ نیابت تشکیل دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی اور صدارتی نظام حکومت دونوں کے حامی موجود ہیں اور اپنے اپنے موقف کے حق میں ان کے پاس ٹھوس دلائل بھی ہیں۔ صدارتی نظامِ حکومت کے حامیوں کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اس لئے وہ بڑے جوش و خروش سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر ملک کو معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت رائج کرنا ہوگا کیونکہ صرف اسی صورت میں ہی ملک کو بقول اُن کے ''کرپٹ اور نااہل‘‘ سیاستدانوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
اگرچہ پارلیمانی نظامِ حکومت کی مخالفت اور صدارتی نظام حکومت کی حمایت کرنے والوں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا اور وہ جو کچھ کہتے ہیں یقینا قومی مفاد اور عوام کی فلاح و بہبود کو ہی پیش نظر رکھتے ہوئے کہتے ہوں گے‘ مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جنوبی ایشیا کے باقی ممالک میں حالیہ واقعات کے قریبی جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ صدارتی نظام کے مقابلے میں پارلیمانی نظام کو عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ خود پاکستان کی مثال لے لیجئے۔ ایوب خاں کے 1962 ء کے آئین کے تحت سات برس تک ملک میں صدارتی نظام نافذ رہا اس میں تین برس جنرل یحییٰ خاں‘ 11برس جنرل ضیا الحق اور نوبرس جنرل مشرف کے شامل کریں تو تیس برس تک تو ملک میں براہ راست صدارتی نظام رائج رہا ہے۔ کہنے کو تو پاکستان نے 1947ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت وفاقی پارلیمانی ملک کی حیثیت سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ عبوری آئین (1947-54ئ)کے تحت پاکستان برائے نام وفاقی پارلیمانی ریاست تھا کیونکہ قانون سازی‘ مالیاتی اور انتظامی شعبوں میں مرکز کو صوبوں پر بالادستی حاصل تھی اور وزیراعظم کی بجائے گورنر‘ جنرل چیف ایگزیکٹو تھا‘ جس کے پاس اسمبلی کو تحلیل کرنے کے علاوہ وزیراعظم کو بھی اپنی صوابدید میں برطرف کرنے کا اختیار تھا۔ اپریل 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو چائے پر بلا کر برطرف کیا اور اکتوبر 1954ء میں پہلی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کیا۔ پاکستان کی 72برس کی سیاسی زندگی کے آدھے سے زیادہ عرصہ کے دوران رسمی یا غیر رسمی صدارتی نظام نافذ رہا ہے۔ پھر پارلیمانی نظام کو ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو جب بھی موقعہ ملا تو انہوں نے یک زبان ہو کر صدارتی نظام کے خلاف اور پارلیمانی نظام کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کی ایک مثال ایوب خاں اور ان کے صدارتی نظام کے خلاف 1968-69 ء کی ملک گیر عوامی تحریک ہے جس میں ملک کے دونوں حصوں کی نمائندہ سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پارلیمانی نظام کا بحالی کو اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز میں اولین جگہ دی۔ ڈاکٹر عطا الرحمن بغیر کسی حوالے کے دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم صدارتی نظام کے حق میں تھے اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی صدارتی نظام اور ون یونٹ کے حامی تھے۔ یہ دونوں رہنما ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہر دلعزیز اور طاقتور تھے۔ اگر وہ چاہتے تو پاکستان کو صدارتی نظام کی راہ پر چلا سکتے تھے۔ پھر آخر ان کے ارادوں کی تکمیل میں کونسا امر مانع تھا؟ اصل میں یہ دونوں رہنما اس لئے عظیم تھے۔ کیوں کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا تھا۔ دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ پارلیمانی نظام کی جگہ اگر صدارتی نظام اپنی مرضی سے نافذ کیا گیا تو عوام اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مزاحمت کی جائے گی۔ یہ صورتحال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے صدارتی نظام نافذ کیا۔ ان کے قتل کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی صدارتی طرزِ حکومت کو جاری رکھا۔ لیکن حسین محمد ارشاد کے خلاف اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی عوامی لیگ اور بی این پی نے مشترکہ تحریک چلائی اور اس تحریک کی کامیابی کے بعد باقی تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملا کر متفقہ طور پر پارلیمانی نظام نافذ کر دیا۔ سری لنکا نے 1948ء میں آزادی کے بعد اپنے سیاسی سفر کا آغاز پارلیمانی نظام سے کیا تھا۔ مگر 1978ء میں یو این پی (یونائیٹڈ نیشنل پارٹی) کے دورِ حکومت میں صدارتی نظام اختیار کر لیا گیا تاہم گزشتہ تقریباً چالیس دہائیوں کے تجربے کے بعد سری لنکا میں بھی صدارتی نظام کو تبدیل کر کے پارلیمانی نظام کی بحالی کے حق میں تحریک زور پکڑ چکی ہے۔ موجودہ صدر سری سینا نے جنوری 2016 ء میں اس وعدے کی بنا پر انتخاب جیتا تھااور اب ملک کیلئے جو نیا آئین تیار کیا جا رہا ہے اس کے تحت ایگزیکٹو پریذیڈنسی ختم کر کے وہاں پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو زیادہ بااختیار کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح نیپال اور بھوٹان میں پارلیمانی نظام ہے حالانکہ 2006ء میں نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا جا سکتا تھا۔ حالیہ سیاسی بحران کے بعد جس میں صدر کو مستعفی ہو کر ملک میں نئے صدارتی انتخابات کروانا پڑے‘ مالدیپ میں بھی صدارتی نظام کے خلاف اور پارلیمانی نظام کے حق میں عوامی رائے تشکیل پا رہی ہے۔
جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کے آٹھ رکن ممالک میں صرف سری لنکا‘ مالدیپ اور افغانستان میں صدارتی نظام رائج ہے لیکن ان ممالک میں بھی صدارتی نظام پر عدمِ اطمینان اور پارلیمانی نظام کے حق میں عوامی رائے تقویت پکڑ رہی ہے۔ پاکستان میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر صدارتی نظام کو عوام اور سیاسی پارٹیوں نے ہر بار کیوں مسترد کیا؟ اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں اس کی حمایت میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اس کی وجوہات یہ ہیں: پارلیمانی نظام واحد نظام ہے جس کا جنوبی ایشیا کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کو عملی تجربہ ہے۔ یہ نظام گزشتہ تقریباً دو سو برس کے آئینی اور سیاسی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ اس کے حق میں عوام اور سیاسی پارٹیوں نے مل کر جدوجہد کی ہے۔ پارلیمانی نظام عوامی اقتدار اعلیٰ کا مظہر ہے کیونکہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک ادارہ پارلیمنٹ ان کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں اراکین اسمبلی کا اپنے حلقے کے ووٹرز سے متواتر اور قریبی رابطہ رہتا ہے جو کہ صدارتی نظامِ حکومت میں ممکن نہیں۔پارلیمانی نظامِ حکومت میں بے شک فیصلے کرنے میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود متعدد پارٹیوں کے نمائندوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے مگر یہ فیصلے دیرپا اور مفید ہوتے ہیں ‘کیونکہ یہ باہمی اتفاق رائے سے طے پاتے ہیں۔ الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ ایوب خاں کا موقف تھا کہ اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج رہا تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ‘لیکن واقعتاً ایوب خاں کے صدارتی نظام نے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی راہ ہموار کی ‘ لہٰذا پاکستان کیلئے صدارتی نظام کی حمایت کرنے والوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں