مرحلہ وار انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد بھارت میں عام بحث کا اب سب سے اہم موضوع یہ ہے کہ آئندہ پانچ برس کے لیے دہلی پر کون حکومت کرے گا؟ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) کی سربراہ بھارتیہ جنتا پارٹی یا یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) کی لیڈر انڈین نیشنل کانگرس؟ این ڈی اے کی کامیابی کی صورت میں بی جے پی کے نامزد امیدوار نریندرا مودی ہی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں گے‘ لیکن یو پی اے کی کامیابی کی صورت میں ضروری نہیں کہ کانگرس کے صدر راہول گاندھی کو وزیراعظم چن لیا جائے‘ اس لیے کہ بی جے پی کے مخالف سیاسی دھڑے میں کئی اور شخصیات بھی ہیںجو خود وزارت عظمیٰ کیلیے امیدوار ہیں‘ ان میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترینا مول کانگرس کی رہنما ممتا بینر جی اور بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ اور آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی سابقہ وزیراعلیٰ مایاوتی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ اور تیلگوڈیسم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اور نیشنلسٹ کانگرس پارٹی کے سربراہ شردپوار بھی اس عہدے کیلئے پَر تول رہے ہیں۔ ان سب میں ممتا بینر جی کا پلڑا اس لیے بھاری ہے کہ انہوں نے اب تک مغربی بنگال میں بی جے پی کو گھسنے نہیں دیا۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی مغربی بنگال کی 42لوک سبھا کی نشستوں میں سے صرف دو حاصل کر سکی تھی اور جب 2016ء میں ریاستی انتخابات ہوئے تو مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے ہونے کے باوجود بی جے پی کو ریاستی اسمبلی کی 243میں سے صرف 3نشستیں مل سکی تھیں۔ اس سے حوصلہ پا کر بی جے پی نے اس دفعہ مغربی بنگال میں جارحانہ انتخابی مہم چلائی ہے‘ تاکہ مودی کی سب سے بڑی مخالف اور وزارت عظمیٰ کیلئے ایک مضبوط امیدوار کو پارلیمانی انتخابات میں شکست دے سکے ۔اس مقصد کیلئے مغربی بنگال میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی قیادت پارٹی کے صدر امیت شاہ کے ہاتھ میں دے دی گئی تھی۔ امیت شاہ نے ووٹرز کی حمایت کے لیے جلسوں جلسوں کے ایک وسیع سلسلے کا آغاز کیا اور اپنی تقریروں اور نعروں میں ممتا بینر جی‘ جنہیں حرف عام میں ''دیدی‘‘ کہہ کا پکارا جاتا ہے‘ کو مشتعل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
ان انتخابات میں ممتا بینر جی کو بی جے پی کی طرف سے دباؤ کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے انہوں نے جہاں ایک طرف یونین گورنمنٹ کی جی ایس ٹی پالیسیوں اور دریائے ٹیسٹا کے پانی سے بنگلہ دیش کو حصہ دینے کی مخالفت کر کے بنگال میں قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے وہاں ریاست میں اپنے پرانے سیاسی حریف یونائیٹڈ لیفٹ فرنٹ اور کانگرس کی حمایت حاصل کرنے کی طرف بھی قدم بڑھایا ہے۔ کانگرس نے تو کلکتہ کے تصادم پر ممتا جی کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے مگر کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) یعنی لیفٹ فرنٹ کے بارے میں ابھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتاکیونکہ لیفٹ فرنٹ سے ریاست میں اقتدار چھیننے کے بعد ترنیامول کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان متعدد تصادم ہوئے ہیں۔ ممتا بینر جی کہہ چکی ہیںکہ اگر ان انتخابات میں کانگرس اور لیفٹ فرنٹ نے اُس کا ساتھ دیا تو وہ 2014ء کی تاریخ دہرا سکتی ہیں۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اس دفعہ اُن کی پارٹی دوبارہ 42میں سے 40لوک سبھا کی نشستیں جیت کر بی جے پی کو شکست دے گی۔
یو پی اے میں شامل 10جماعتوں کے علاوہ اپوزیشن کی باقی تمام سیاسی جماعتوں کی پوری کوشش رہی کہ اس دفعہ نر یندرا مودی کی سرکردگی میں بی جے پی کی حکومت نہ بننے پائے۔ اس کے لیے بعض سیاسی رہنما خاص طور پر سرگرم عمل رہے ان میں ٹی ڈی پی کے سربراہ اور آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندرابابو نائیڈو نمایاں ہیں۔ انتخابی مہم کے آخری ادوار کے دوران انہوں نے کانگرس کے صدر راہول گاندھی سے دہلی میں ملاقات کی اور بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے پر بات چیت کی۔ اس سے قبل وہ اس مقصد کیلیے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنماؤں سے ملاقات کر چکے تھے۔ مسٹر نائیڈو مشاورت کے لیے جن دیگر رہنماؤں سے ملنے کا ارادہ رکھتے تھے‘ اُن میں بھوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی‘ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیش یادیو شامل تھے۔ ان دونوں پارٹیوں کو 2014ئکے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے ہاتھوں اتر پردیش میں بُری طرح شکست ہوئی تھی‘ مگر اس دفعہ انہوں نے آپس میں انتخابی اتحاد کر لیا اور ان کا خیال ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی ریاستی حکومت کے سربراہ ادتیا ناتھ کی متعصبانہ پالیسیوںکی وجہ سے ہوا کا رُخ تبدیل ہو چکا ہے اور اب ''مودی لہر‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔اتر پردیش کے ان دونوں رہنماؤں سے چندرا بابو نائیڈو کی ملاقات کی اہمیت کی بنیاد یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے اتر پردیش سے لوک سبھا کے 80ارکان منتخب ہوئے ہیں۔ اگر ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد اتر پردیش سے 60سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ تو وزارت ِعظمیٰ کیلئے ان دونوں رہنماؤں میں سے کسی ایک کی پوزیشن مضبوط ہو جاتی ہے۔ چندرا بابو نائیدو نے اپنی مشاورت کے سلسلے میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے شنکر راؤ‘ عام آدمی پارٹی کے سربراہ‘ اروند کجریوال اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سیکرٹری جنرل سیتا رام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنلسٹ کانگرس پارٹی کے رہنما شردپوار سے ملاقات کی ہے اور ممتا بینر جی سے ٹیلی فون پر اُن کی رائے معلوم کی ۔
چند سیاسی رہنماؤں کی رائے ہے کہ بھارت کا آئندہ کا وزیراعظم ایسا شخص ہونا چاہیے‘ جس کا تعلق نہ بی جے پی سے اور نہ کانگرس سے ہو۔ ایسی رائے رکھنے والوں میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے شنکر راؤ پیش پیش ہیں اور انہوں نے اس کے امکانات کا جائزہ لینے کیلئے تامل ناڈو میں ڈی ایم کے کے رہنما جو کہ کانگرس کے اتحادی ہیں‘ سے بات چیت کی ہے اور ممتا بینر جی سے بھی مشورہ کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں میں بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے پر تو پورا پورا اتفاق ہے‘ مگر آئندہ وزیراعظم کون ہوگا‘ اس پر اتفاق نہیں ہے‘ اور یہی اپوزیشن کی سب سے بڑی کمزوری ہے ‘جسے بی جے پی نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے والے ایگزٹ پول پر 19مئی تک پابندی عائد کر رکھی تھی تاہم اب جو ایگزٹ پولز آ رہے ہیں‘ ان سے یہ تاثر ضرور ملا ہے کہ عام آدمی؛ اگرچہ بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کی کارکردگی سے خوش نہیں اور لوگ بیروزگاری جیسے مسائل سے بھی نالاں ہیں‘ تاہم وہ نریندر مودی کو مزید پانچ برس کے لیے ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ کانگرس نے راہول گاندھی کی رہنمائی میں بہتر پرفارم کیا ہے اور اس کا ثبوت چھتیس گڑھ‘ راجستھان ‘پنجاب یہاں تک کہ گجرات کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے‘ اس کے علاوہ پریاناکا گاندھی کے میدان میں کودنے سے بھی فرق پڑنے کی امید ہے‘ مگر مودی اور امیت شاہ نے اس دفعہ پھر بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے۔ انہوں نے پروگرام کے تحت تمام طے شدہ انتخابی جلسوں اور جلوسوں سے خطاب کیا ۔ اس سے بی جے پی کو قوی امید ہے کہ عوام کا فیصلہ ایک دفعہ پھر اُس کے حق میں ہوگا۔ مودی کا دعویٰ ہے کہ اس دفعہ اُن کی پارٹی لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے کم ازکم 300پر کامیاب ہوگی ‘جبکہ اپوزیشن کادعویٰ ہے کہ اس دفعہ بی جے پی 100سے زیادہ حاصل نہیں کر سکے گی۔ 2014ء کے انتخابات میںبی جے پی نے 282نشستیں حاصل کی تھیں۔ عام رائے کے مطابق ؛اس دفعہ بھی بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں‘ مگر گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں اس دفعہ بی جے پی کو لوک سبھا کی کم تعداد میں نشستیں حاصل ہوں گی۔ (ختم شد)