کثیر جماعتی سیاسی نظام میں فریقین کے درمیان بیان بازی، سخت جملوں کا تبادلہ، حتیٰ کہ ذاتی حملوں کا تبادلہ معمول کی بات ہے کیونکہ مقابلہ اقتدار کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ اس لئے ہر انتخاب ایک جنگ کا سماں پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک مشہور جرمن سٹریٹیجک تھنکر نے کہا تھا کہ جنگ دراصل سیاست کا ہی دوسرا نام ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ موخرالذکر کے مقابلے میں اول الذکر میں ذرائع مختلف استعمال کیے جاتے ہیں اور چونکہ جنگ میں مقصد حاصل کرنے کیلئے ہر حربہ جائز ہے، اس لئے سیاست میں بھی طاقت اور وسائل کو اپنے قابو میں لانے اور مخالف فریق کو شکست دینے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن انتخابی نتائج آنے کے بعد ہنگامہ خیزی کی جگہ سکون لے لیتا ہے۔ ہارنے والا فریق اپنی ہار مان لیتا ہے اور جیتنے والے کو مبارک باد دیتا ہے؛ تاہم حزب مخالف میں رہتے ہوئے حکومت کی غیر قانونی، غیر آئینی یا مفاد عامہ کے منافی پالیسیوں سے اختلاف اور ان پر تنقید کا حق محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر یہ عمل جمہوریت کا حصہ ہے اور جائز ہے۔ ہاری ہوئی پارٹی، جیتنے والی پارٹی کے حقِ حکومت کو تسلیم کر لیتی ہے اور یوں جمہوریت کی گاڑی اپنے سفر پر رواں دواں رہتی ہے۔ لیکن پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر الیکشن سیاسی استحکام اور سکون کی نوید لانے کی بجائے، نئی محاذ آرائی اور رسہ کشی کا پیغام لاتا ہے۔
پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے تھے جن کے بارے میں متفقہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ صاف اور شفاف انتخابات تھے‘ لیکن ان کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا اور بالآخر اس کا ایک حصہ علیحدہ ہو گیا۔ دوسرے انتخابات 1977ء میں ہوئے جن میں مبینہ دھاندلی کے الزام کی بنیاد پر حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز ہوا‘ جو بالآخر 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق کے مارشل لا پر منتج ہوئی۔ جنرل ضیا نے تقریباً گیارہ برس تک براہ راست مارشل لا (1977۔1985ئ) اور پھر نیم فوجی سویلین سیٹ اپ (1985۔ 1988ئ) کے تحت حکومت کی۔ مئی 1988ء میں وزیر اعظم جونیجو کی حکومت کو آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت برطرف کرنے کے بعد جنرل ضیا نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں آئندہ انتخابات بھی نان پارٹی ہوں گے لیکن وقت نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ 17 اگست 1988ء کو بہاول پور کے قریب طیارے کے ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اکتوبر، نومبر 1988ء میں جو انتخابات ہوئے سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ان میں سیاسی پارٹیوں کو حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرکے مرکز میں حکومت قائم کی۔ مگر اس حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اس کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ میاں محمد نواز شریف نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت سنبھالے بمشکل ایک سال ہی ہوا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ محترمہ کی حکومت اس تحریک عدم اعتماد سے تو بچ گئی مگر اگست 1990ء میں صدر غلام اسحاق خاں کے آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت وار سے نہ بچ سکی۔ اس حکومت کی برطرفی کے بعد جو انتخابات ہوئے اُن میں اسلامی جمہوری اتحاد نے کامیابی حاصل کی اور میاں محمد نواز شریف پہلی دفعہ ملک کے وزیر اعظم بنے لیکن انہیں بھی اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا اور صدر غلام اسحاق خاں نے 1993ء میں آٹھویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 58-2(B) کو استعمال کرکے حکومت کو معزول کر دیا۔ 1993ء کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں مرکزی حکومت قائم کی لیکن اس حکومت کو بھی مدت پوری ہونے سے پہلے نومبر 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 58-2(B) کے تحت معزول کر دیا۔ 1997ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی اور نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اپنی دوسری مدت میں میاں محمد نواز شریف نے سب سے پہلے اپریل 1998ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے آٹھویں آئینی ترمیم کی ان دفعات کو ختم کر دیا جس کے تحت صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور حکومت کو برطرف کرنے کا صوابدیدی اختیار حاصل تھا۔ مگر یہ اقدام نواز شریف کو اکتوبر 1999 ء میں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کے ہاتھوں معزولی، گرفتاری اور اس کے بعد جلا وطنی سے نہ بچا سکا۔ جنرل مشرف کو ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 2002ء میں آئین بحال کرکے انتخابات کروانا پڑے۔ چونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت ملک سے باہر تھی۔ اس لئے جنرل مشرف کی حامی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) نے مرکز اور پنجاب جبکہ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں حکومتیں قائم کیں لیکن چونکہ یہ حکومتی ڈھانچہ مصنوعی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا تھا‘ اس لئے 2008ء میں جب نسبتاً آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور شفاف ماحول میں انتخابات کروائے گئے تو مشرف کی حامی پاکستان مسلم لیگ (ق) کو بُری طرح شکست ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری اور اس نے مرکز میں حکومت قائم کی لیکن ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی میں ہمدردی کی اس لہر کا بہت بڑا حصہ ہے‘ جو دسمبر 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی میں بم دھماکے میں شہادت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
جب 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت قائم ہوئی تو اس کے قیام کے ساتھ ہی اس کے خاتمہ کی پیش گوئیاں شروع ہو گئی تھیں اور پھر اگلے پانچ برسوں میں اس حکومت کو کمزور بلکہ مفلوج کرنے کی جو کوششیں کی گئیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکز اور پنجاب میں اکیلے اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کی جبکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بظاہر اس سیٹ اپ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا کیونکہ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، حکمران جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ نون سے تعاون پر آمادہ تھی۔ چودھری نثار (وزیر داخلہ) کی وجہ سے مرکز اور سندھ میں رینجرز کی تعیناتی کے مسئلے پر کشیدگی پیدا ہوئی مگر اس کشیدگی سے نہ مرکز میں نون لیگ کی حکومت کو خطرہ تھا اور نہ سندھ میں پیپلز پارٹی خوف زدہ تھی۔ پھر اگست 2014ء میں پی ٹی آئی کے عمران خان نے نواز شریف کی حکومت پر دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کے الزام میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور پھر اسلام آباد میں 126 دن کیلئے ڈی چوک میں دھرنا دیا۔ نواز شریف کا استعفیٰ حاصل نہ ہو سکا مگر عمران خان مرکزی حکومت کی ملکی معاملات پر گرفت کو کمزور کرنے میں ضرور کامیاب ہو گئے۔ اس کی وجہ سے نواز شریف کی تیسری حکومت پاکستان کے اندرونی حالات اور خارجہ پالیسی کے شعبے میں جو تبدیلیاں لانا چاہتی تھی وہ نہ لا سکی اور ایک کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا بلکہ وہ کسی سیاسی عہدے کے لئے تاحیات نااہل بھی قرار دے دیئے گئے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے سندھ کے سوا مرکز سمیت باقی تمام صوبوں میں اپنی حکومت قائم کرلی لیکن پاکستان سیاسی عدم استحکام سے بدستور دوچار ہے۔ موجودہ حکومت کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جو چیلنجز درپیش ہیں، وہ اس کی پیشرو حکومتوں کو درپیش چیلنجز سے کہیں زیادہ ہیں مگر حکومت کا رویہ اپوزیشن کی طرف انتہائی جارحانہ ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ قانون کے مطابق احتساب کی پالیسی پر عمل پیرا ہے؛ تاہم اپوزیشن اور غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں حکومت اپنے اقتدار کے پہلے سال میں خراب کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے احتساب کے نام پر اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور خدشہ یہ ہے کہ اس سے غیر سیاسی قوتیں فائدہ اٹھا کر کہیں جمہوریت کا بوریا بستر ہی گول نہ کر دیں۔