وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت ملک کی خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ اپوزیشن مثبت اور تعمیری تجاویز پیش کرنے پر آمادہ ہو۔ خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ اپوزیشن کی طرف سے اکثر و بیشتر کیا جاتا رہا ہے۔ چند دن پیشتر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی اسی قسم کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت بھی وزیر خارجہ نے ان سے اتفاق کیا تھا۔ خارجہ پالیسی پر عوامی نمائندوں کی رائے معلوم کرنے کا مطالبہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ: اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام کے تحت ایک مقتدر پارلیمنٹ ہونے کے باوجود خارجہ پالیسی جیسے اہم شعبے میں فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور پھر ان فیصلوں کو منتخب اداروں پر ٹھونس دیا جاتا ہے۔ دوسری وجہ: پاکستان کے گرد و نواح میں اہم اور دور رس مضمرات کے حامل واقعات رونما ہو رہے ہیں‘ جن کے بارے میں حکومت پاکستان کا موقف واضح اور قومی مفادات کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ پورے اعتماد اور عوام کی بھاری حمایت کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش کیا جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ کو اپنا آئینی کردار ادا کرنے کا کم ہی موقعہ دیا گیا ہے۔ ماضی میں خارجہ پالیسی کے شعبے میں بڑے بڑے فیصلے کرتے وقت کسی بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حتیٰ کہ بعض صورتوں میں اہم معاہدوں کو بھی توثیق کیلئے پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں 1950 کی دہائی میں سیٹو (1954) اور معاہدہ بغداد (1955)‘ جو بعد میں سنٹو کے نام سے مشہور ہوا‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1954 میں اُس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ نے حکومت کے مینڈیٹ کے بغیر ہی معاہدے پر دستخط کر کے، پاکستان کو سیٹو میں شامل کر دیا تھا۔ اسی طرح معاہدہ بغداد میں شمولیت اختیار کرتے وقت، پاکستان کی حکومت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں قائم ہونے والے ان دفاعی معاہدوں میں پاکستانی شمولیت کو کبھی عوامی تائید حاصل نہ ہو سکی۔
تجربہ ہمیں بتایا ہے کہ عوام کی مرضی کے بغیر کئے جانے والے فیصلے‘ خصوصاً خارجہ پالیسی کے شعبے میں‘ قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے ملک کی زندگی کا تقریباً نصف عرصہ چونکہ غیر جمہوری اقتدار میں گزرا ہے، اس لئے ان ادوار میں لئے گئے یک طرفہ فیصلوں نے قومی مفاد کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس سلسلے میں جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں افغانستان میں روس کی موجودگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی تقریباً غیر مشروط حمایت کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگر ان مواقع پر پاکستان میں جمہوری نمائندہ حکومتیں موجود ہوتیں تو ان بحرانوں سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا تھا۔ 2008 میں موجودہ جمہوری دور کے آغاز کے بعد البتہ پارلیمنٹ نے ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں امورِ خارجہ کا جائزہ اور ان پر بحث کیلئے سٹینڈنگ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان کمیٹیوں نے گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں خارجہ پالیسی کے شعبے میں حکومت وقت کی رہنمائی کیلئے مفید کردار ادا کیا ہے۔ لیکن عام اور سیر حاصل بحث کے مواقع کم ہی مہیا کئے گئے ۔ ''قومی مفادات‘‘ اور حساس معاملات کا سہارا لے کر بعض مسائل پر پارلیمنٹ میں اوپن بحث کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس میں فیصلہ سازی کا اختیار کابینہ کو حاصل ہے‘ جس کی سربراہی وزیر اعظم کے پاس ہوتی ہے۔ پھر دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی کی تشکیل کا کام پارلیمنٹ میں سرانجام نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کے لئے خصوصی اہلیت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے جو وزارت خارجہ کے ارکان کی پاس ہوتی ہے۔ مگر خارجہ پالیسی کے شعبے میں اہم فیصلوں سے پارلیمنٹ کو آگاہ کرنا بلکہ اس سے رہنمائی حاصل کرنا، حکومت کا فرض ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جمہوری اور سویلین ادوار میں بھی حکومتیں اس اہم فریضے کی ادائیگی سے کتراتی رہی ہیں اور معاملات کی حساسیت کی آڑ میں اکثر فیصلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر ہی کئے جاتے رہے ہیں۔ ہاں! 2015 میں سعودی عرب کی طرف سے یمن کی جنگ میں پاکستانی فوجی دستوں کی شمولیت کی درخواست کے سبب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنے پر مجبور ہونا پڑا؛ چنانچہ اپریل 2015 میں پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس میں اس مسئلے پر بحث کی گئی۔ اس اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو یمن کی جنگ میں مکمل غیر جانبداری اختیار کرنی چاہئے؛ البتہ اگر کسی طرف سے سعودی عرب کی علاقائی سلامتی یا مقامات مقدسہ کو خطرہ ہو تو پاکستان امداد سے ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کرے گا۔ اپریل 2015 میں پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے نے نہ صرف سابق بلکہ آئندہ حکومتوں کو بھی کڑی آزمائش سے آسانی کے ساتھ بچ جانے کا راستہ فراہم کیا۔
اس وقت بھی علاقائی اور عالمی حالات پارلیمنٹ سے رجوع کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہمارے عین پڑوس میں ایران اور اس کے ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان سخت کشیدگی ہے اور ایران پر امریکی حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں گزشتہ 18 برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی‘ خصوصاً امریکی افواج کے بعد کی صورتحال سے پاکستان کیسے نمٹے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے اہم چیلنجز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سنگین چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے قوم کی اجتماعی سوچ اور عقل کی ضرورت ہے۔ ظاہر کہ اس کا فورم پارلیمنٹ کے سوا اور کوئی نہیں۔ پارلیمنٹ کی طرف سے مہیا کی جانے والی گائیڈلائن نہ صرف قوم کے اجتماعی شعور کی عکاسی ہو گی، بلکہ اسے اخلاقی، قانونی اور سیاسی تائید بھی حاصل ہو گی جو کسی بھی پیش قدمی کی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی نظام کے ڈھانچے میں پارلیمنٹ کو نہ صرف اس کا کبھی جائز مقام نہیں دیا گیا، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جان بوجھ کر بے توقیر کیا جاتا رہا۔ لیکن خارجہ تعلقات کے میدان میں اب پاکستان کو ایسے چیلنجز درپیش ہیں کہ موجودہ حکومت کو بھی پارلیمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا کیونکہ بیرونی طاقتیں جب یہ دیکھیں گی کہ حکومت کی پشت پر پارلیمنٹ کی حمایت کی صورت میں پوری قوم کھڑی ہے، تو انہیں پاکستان کا مؤقف سننا پڑے گا اور اس کے سکیورٹی خدشات کو ملحوظ خاطر بھی رکھنا پڑے گا۔ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم اپنے دورۂ امریکہ سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور قومی مفاد کے تحفظ کی خاطر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پاکستان کا جو مؤقف رکھنا چاہتے ہیں، اس کی پارلیمنٹ سے تائید حاصل کریں۔ اس سے وزیر اعظم کی پوزیشن مضبوط ہو گی اور پاکستان کے قومی مفادات کو تحفظ ملے گا۔ خصوصاً اس وقت جبکہ امریکہ بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون میں بہت آگے بڑھ چکا ہے اور پاکستان‘ جس کے ساتھ امریکہ کا سٹریٹیجک الائنس تھا، کو برابر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر امریکی وزارت دفاع نے جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی حکمت عملی کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں پہلی مرتبہ پاکستان کے کردار کو حذف کیا گیا تھا‘ اور اس کی جگہ بھارت کی اہمیت کو نمایاں کیا گیا تھا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق امریکہ بھارت کو بھی نان نیٹو اتحادی ملک کا درجہ عطا کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان سیاسی اور دفاعی تعلقات کے قیام کا سلسلہ سابق صدر بش کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ صدر اوباما نے اس میں قابل قدر حد تک اضافہ کیا۔ مگر صدر ٹرمپ کے زمانے میں یہ تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے مسئلہ پر امریکی اور بھارتی موقف میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہے۔ واشنگٹن میں وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان بات چیت کے ایجنڈے میں یہ امور لازمی طور پر شامل ہوں گے۔ اگر وزیر اعظم امریکہ عازم ہونے سے قبل پارلیمنٹ سے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی تائید حاصل کر لیں تو وہ نہ صرف صدر ٹرمپ کے ساتھ پورے اعتماد کے ساتھ بات کر سکیں گے بلکہ قومی مفادات کے تحفظ اور پاکستان کے سکیورٹی خدشات سے متعلق امریکی صدر کو قائل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔