ماہِ رواں کے اوائل میں جب بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر سے سیاحوں، طالب علموں اور دیگر غیر ملکیوں کو نکل جانے کا حکم دیا۔ امرناتھ یاترا، جس کا ہر سال اگست میں اہتمام کیا جاتا ہے، کو دو ہفتے پہلے ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا‘ شہریوں کو ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے راشن، پٹرول اور دیگر اہم ضروریاتِ زندگی کو ذخیرہ کرنے کی ہدایات جاری کر دیں اور پوری ریاست میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی، تو باہر کی دنیا نے یہی سمجھا کہ نریندر مودی کی حکومت سیاست میں کوئی بڑا قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ مگر کیا قدم اٹھانا چاہتی ہے، اس ضمن میں مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں؛ تاہم جب بھارتی حکومت نے اشارہ دیا کہ یہ اقدامات سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کئے جا رہے ہیں تو دنیا نے یقین کر لیا کہ بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں کسی ممکنہ دہشت گردی کے واقعہ کی روک تھام یا کسی بڑے حملے کے پیش نظر یہ اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن 5 اگست کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر پر لاگو بھارتی آئین کی دفعہ 370 ختم کرنے کا جب اعلان ہوا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کی گزشتہ 70 برس سے زائد عرصہ سے چلی آنے والی آئینی حیثیت کو ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھارتی پارلیمنٹ میں بل پیش کیا، تو مودی حکومت کے اصلی عزائم دنیا پر آشکار ہو گئے۔ بی جے پی کی انتہا پسند حکومت نے بیک جُنبشِ قلم ریاست جموں و کشمیر کی سات دہائیوں سے قائم آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا اور اس کے لیے خود آرٹیکل 370 میں درج آئینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغیر کسی قومی مشاورت یا اتفاق رائے کے ایسا اقدام کیا کہ نہ صرف دنیا حیران ہے، بلکہ بی جے پی کی اتحادی پارٹیاں بھی نالاں ہے کہ نریندر مودی نے ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ یہ تمام کارروائی اتنی خاموشی سے اور اتنے خفیہ طریقے سے کی گئی کہ بھارت کے پارلیمانی حلقوں یا میڈیا کو بھی آخر وقت تک خبر نہ ہوئی۔ اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے بھارت کی کمیونسٹ پارٹی نے بالکل درست کہا کہ مودی سرکار کا یہ اقدام ''آئین پر شب خون‘‘ کے مترادف ہے جس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے مودی حکومت کے اس اقدام کے خلاف باقی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر نئی دہلی میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی حکومت نے رات کے اندھیرے میں چھپ کر آج کشمیریوں پر یہ وار کیا ہے، کل کو باقی ملک کی بھی باری آ سکتی ہے‘ کیونکہ بھارت کی بیشتر سیاسی جماعتیں خصوصاً علاقائی سیاسی حلقے بی جے پی کو بھارت میں وفاقی کی بجائے وحدانی نظام کی حامی پارٹی سمجھتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے کشمیر میں اس اقدام کو ملک میں وفاقیت کے خلاف کارروائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور ملک کی وہ سیاسی قوتیں جن کی جدوجہد سے بھارت میں ایک وفاقی نظام قائم ہوا تھا‘ مودی حکومت کے اس فیصلے کو بھارت میں عملی طور پر وفاقی نظام کی جگہ وحدانی نظام کے قیام کی طرف پہلا قدم سمجھتی ہیں۔ مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے خلاف، آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے جو اقدام کیا ہے، بھارت کی اندرونی سیاست پر اُس کے اثرات آہستہ آہستہ نمایاں ہو رہے ہیں اور آگے چل کر شدید صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں، لیکن علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر امن اور سلامتی کو جو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، ان کے ادراک اور اس کی بنیاد پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے جو رد عمل آ سکتا ہے، وہ بھی اپنی جگہ اس تمام کارروائی کا ایک اہم پہلو ہے۔
فوری طور پر اس اقدام کے خلاف عالمی رد عمل نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی برادری اس قسم کے اقدام کے لیے تیار نہ تھی بلکہ اس کے برعکس افغانستان میں قیام امن کے امکانات روشن ہونے کے بعد جنوبی ایشیا میں پاک بھارت مصالحت اور جموں و کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش اور چین کی طرف سے اس پیشکش کی بھرپور حمایت کو اسی سیاق و سباق میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک مثلاً روس اور یورپی یونین حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے بھی اسی قسم کی پیشکشیں پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے ایک حصے کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی بی جے پی کے ایجنڈے پر گزشتہ کئی دہائیوں سے تھی اور وہ اس پر عملدرآمد کے ارادے کا گاہے بگاہے اظہار بھی کرتی تھی، مگر اب جس عجلت اور خفیہ طریقے سے یہ اقدام کیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ صدر ٹرمپ کا بیان بھی ہے‘ کیونکہ نریندر مودی کی حکومت کو ڈر تھا کہ صدر ٹرمپ کے بیان کی حمایت میں چین کے بعد دوسرے ممالک بھی میدان میں کود پڑیں گے اور اس طرح بھارت کو زبردست عالمی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ امریکہ سمیت تمام بڑے ممالک افغانستان میں قیام امن کے سمجھوتے کی کامیابی کو پاک بھارت امن سے مشروط سمجھتے ہیں۔ مودی حکومت نے اس دبائو سے بچنے کے لیے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں مکمل طور پر مدغم کرنے کا اعلان کیا ہے تا کہ کسی حلقے کی جانب سے تنازعہ کشمیر پر ثالثی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ مگر مودی سرکار ایک بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ آرٹیکل 370 ختم کرکے وہ دنیا کو باور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی کہ تنازعہ کشمیر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، اس لیے اس پر ثالثی کی پیشکش یا اس کے حل کیلئے پاک بھارت مذاکرات کی بات بے معنی ہوگی۔ مگر مودی حکومت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ماضی میں بھی اس نے متعدد بار یکطرفہ طور پر اور پاکستان سے بالا بالا، تنازعہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کی‘ مگر ہر بار اُس کی یہ کوشش ناکام ہوتی رہی ہے۔ اس بار بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی اور ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے سے کشمیر کا مسئلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ علاقائی اور عالمی سیاسی افق پر نمودار ہوگا کیونکہ بھارتی حکومت کے اس اقدام سے جنوبی ایشیا میں ایسی خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے، جیسی اس سے قبل کبھی نہ تھی۔ اس کا اندازہ اُس رد عمل سے کیا جا سکتا ہے جو جائز طور پر پاکستان کی طرف سے آیا ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے، مگر آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد یہ تاریخ کی پست ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے۔ نئی دہلی کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دیئے گئے ہیں اور بھارت کے ساتھ ہر قسم کے معاملات کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2004ء میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی عوام کو سہولت دینے کیلئے جو اقدام کئے تھے وہ معطل کر دیئے جائیں گے۔ ان میں مظفر آباد، سری نگر بس سروس اور لائن آف کنٹرول کے آر پار بارٹر ٹریڈ کی سہولیات بھی شامل ہیں۔ بھارت کی طرف سے اس اقدام کے نتیجے میں کرتارپور کوریڈور کا منصوبہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے مودی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی اور کہا ہے کہ مرکزی حکومت کو کشمیری عوام کی رائے لئے بغیر ایسا اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ لائن آف کنٹرول پر تعینات اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سرحد کے دونوں طرف فوجی نقل و حرکت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر اہم ممالک کی حکومتوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کو ضبط سے کام لینے کی درخواست کی ہے۔ مگر مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو یک طرفہ منسوخ کرکے جو بحران پیدا کیا ہے، اُس کے حل کی ذمہ داری خود بھارتی حکومت پر ہے۔ اگر بھارت کی سپریم کورٹ نے اُس اقدام کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے کر سابقہ صورتحال بحال نہ کی تو حالات کو مزید خراب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے نتیجے میں اگر جنوبی ایشیا ایک دفعہ پھر جنگ کے شعلوں کا شکار ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری مودی حکومت پر ہو گی۔