چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئر مین جنرل ژو کلیانگ (Xu Qiliang) نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ چین کا سنٹرل ملٹری کمیشن‘ جسے 1954ء میں قائم کیا گیا تھا‘ ملک کا سب سے اہم عسکری ادارہ ہے۔ اس کی چیئر مین شپ سربراہ مملکت یعنی صدر کے پاس ہوتی ہے اور ان کے ماتحت کئی نائب صدور ہوتے ہیںجو چین کی مسلح افواج اور دفاعی اداروں کے سربراہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح سنٹرل ملٹری کمیشن کے موجودہ سربراہ صدر ژی ہیں اور جنرل ژو اِن کے بعد سب سے اہم فوجی رہنما ہیں۔
جنرل ژو نے پاکستان کا دورہ اس وقت کیا ہے جب کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے اسلام آباد اور نئی دہلی میں انتہائی کشیدگی بلکہ ملٹری سٹینڈ آف کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق دونوں ملکوں میں تصادم کا خطرہ بڑھ چکا ہے‘ جو کسی وقت بھی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ تیزی سے بدلتی اس صورت حال پر بین الاقوامی برادری کو تشویش ہے‘ کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور اگر ان کی فوجوں میں ٹکرائو ہوا تو اس میں روایتی ہتھیاروں کے علاوہ ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ جنرل ژو کا دورہ اس لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کی طرف سے کشمیر میں جو اقدامات کیے گئے ہیں‘ چین انہیں یک طرفہ قرار دے کر نہ صرف جنوبی ایشیا اور پاکستان بلکہ خود چین کی قومی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے خلاف قرار دے چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے پاکستان کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے‘ مسئلہ کشمیر کو پُر امن طریقے اور باہمی بات چیت کے ذریعے‘ مگر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارتی حکومت کے اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست بھی چین کی طرف سے کی گئی تھی۔ 16 اگست کو نیویارک میں ہونے والے سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں چین نے پاکستان اور کشمیری عوام کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں سے چین واحد رکن ملک تھا جس نے اصرار کیا کہ کونسل اپنے اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان جاری کرے‘ جس میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے سلامتی کونسل اپنا آئندہ کا لائحہ عمل پیش کرے۔ چونکہ کونسل کے دیگر چار مستقل اراکین یعنی امریکہ‘ روس ‘ برطانیہ اور فرانس ایسا بیان جاری کرنے کے حق میں نہیں تھے اس لیے اجلاس کے اراکین کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بحث کے بعد مشترکہ بیان جاری نہ ہو سکا‘ تاہم اجلاس کے بعد چینی مندوب نے رپورٹرز کو بتایا کہ کونسل کے تمام اراکین نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر مسئلے کو پر امن اور دو طرفہ بنیادوں پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔
جنرل ژو کی پاکستان آمد سے قبل چینی حکومت کی طرف سے پاکستان کی حمایت میں متعدد بیانات جاری کیے گئے ۔ ان بیانات میں چینی حکومت نے واضح طور پر کہا کہ چین اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا مکمل ساتھ دے گا اور پاکستان کے اہم قومی مفادات یا علاقائی سلامتی کو خطرہ ہوا تو چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اسی طرح چین نے اعلان کیا کہ چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کو اور مضبوط کیا جائے گا۔ بیانات میں پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعلقات کو بے مثال قرار دیتے ہوئے چین نے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ کشمیر کے موجودہ بحران میں پاکستانی موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کیلئے پاک آرمی کا سربراہ مقرر ہونے پر چین کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا‘ اس کا مقصد بھی پاکستان اور چین کی مسلح افواج کے درمیان قریبی تعلقات اور تعاون کو اجاگر کرنا تھا۔ چین کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا‘ اس کے مطابق جنرل باجوہ پاک آرمی کے ایک ممتاز سربراہ ہیں جن کی قیادت میں فوج نے نہ صرف قومی مفادات کے دفاع اور علاقائی سلامتی‘ امن اور استحکام میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں‘ بلکہ پاکستان اور چین کی مسلح افواج کو بھی ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی تناظر میں اگر جنرل ژو کے دورۂ پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک غیر معمولی دورہ کہا جا سکتا ہے۔ اپنے دورے کے دوران جنرل ژو نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقاتیں کیں۔ جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقات میں چینی فوجی رہنما نے پاکستان اور چین کی افواج کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کے علاوہ‘ علاقے کی سلامتی کی صورتحال خصوصاً بھارت کی جانب سے کشمیر میں تازہ ترین اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران پر بھی بات چیت کی۔ اسی طرح صدر مملکت اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں چینی جنرل نے چینی قیادت کی طرف سے خصوصی پیغامات پہنچائے۔ پیغامات میں چینی حکومت نے ایک دفعہ پھر خصوصاًاس نازک موقعہ پر پاکستان کو اپنی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ جنرل ژو نے بری فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے ملاقات کے بعد ائیرہیڈ کوارٹرز میں پاک فضائیہ کے سربراہ اور نیول ہیڈ کوارٹر میں پاک بحریہ کے سربراہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ نیول ہیڈ کوارٹر میں پاک بحریہ کے سربراہ سے ملاقات کے بعد جنرل ژو نے کراچی میں پاک بحریہ کی فیلڈ کمانڈ کا بھی دورہ کیا۔
چینی جنرل کا پاک بحریہ کی فیلڈ کمانڈ کا دورہ اس لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ نہ صرف پاک بھارت سٹینڈ آف کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاک بحریہ کی استعداد اور مہارت میں اضافے کے لیے چین کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے‘ بلکہ سی پیک منصوبوں سے پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں بھی نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ پاک بحریہ کو ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے چین نے پاکستان کی گرانقدر اعانت کی ہے۔ جس طرح جے ایف 17تھنڈر لڑاکا طیارے چین اور پاک فضائیہ کے درمیان تعاون کا سمبل ہیں‘ اسی طرح چین کی مدد سے پاک بحریہ میں فریگیٹ اور آبدوزوں کے بیڑے میں توسیع کی گئی ہے۔ چین اور پاک بحریہ نے مل کر بحرِ ہند اور بحیرہ عرب میں بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے۔ اسی سال فروری‘ مارچ میں امن 19ء کی مشقوں میں 48 دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان اور چین کی بحری فوجوں کی شرکت اس تعاون کا بین ثبوت ہے۔
بحر ہند کی بڑھتی ہوئی جنگی اور معاشی اہمیت کے پیش نظر اور خاص طور پر سی پیک کی تعمیر کے پیش نظر مختلف ملکوں نے اس سمندر میں اپنی بحری سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ ان ممالک میں امریکہ‘ چین‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور روس کے علاوہ بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت دنیا کے بڑے ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کیلئے بحیرہ ہند پر اپنی سیاست قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کی کوشش کا مرکز بحر ہند کے شمالی مغربی علاقے یعنی بحیرہ عرب ‘ خلیج فارس اور خلیج اومان ہیں۔ بھارت ان علاقوں سے گزرنے والے اپنے آئل ٹینکرز کی حفاظت کے نام پر اپنی بحری قوت‘ جس میں سرفیس شپ کے علاوہ‘ ائیر کرافٹ کیریئر اور آبدوزیں شامل ہیں‘ میں نمایاں اضافہ کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ان علاقوں میں اپنی بحری قوت میں اضافے کا اصل مقصد امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر چین اور پاکستان کے اکنامک کاریڈور یعنی سی پیک میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اس کوشش کو ناکام بنانے کیلئے چین نے بھی ان علاقوں میں اپنی بحری قوت میں اضافہ کر دیا ہے۔ پاک بحریہ ان کوششوں میں چینی بحریہ کا پورا پورا ساتھ دے رہی ہے۔ بلوچستان سے منسلک بحیر ہ عرب اور اس سے ملحقہ پانی کے دیگر علاقے مثلاً خلیج اومان‘ پاکستانی دفاع کیلئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں‘ اس لیے چینی جرنیل کا اس علاقے میں پاک بحریہ کے بیڑے کا معائنہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ جنرل ژو کے دورے کے اختتام پر چینی وزارت خارجہ نے جو بیان جاری کیا اس میں اس دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیا اور کہا گیا ہے کہ اس دورے سے پاکستان اور چین کی مسلح افواج کے درمیان تعاون میں مزید اضافہ ہوگا‘ جس سے پاکستان اور چین کے بنیادی مفادات اور علاقے کی سلامتی‘ امن اور استحکام کے دفاع میں مدد ملے گی۔