"DRA" (space) message & send to 7575

نئے انتخابات کے امکانات کتنے ہیں؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں کیونکہ ان کے مطابق‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت‘ جسے اقتدار سنبھالے ابھی 15 ماہ ہوئے ہیں‘ بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ خصوصاً معیشت کے شعبے میں حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں اور اپوزیشن کی نظر میں‘ اگر یہ حکومت مزید کچھ عرصہ تک مسندِ اقتدار پر قابض رہی‘ تو حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ اسمبلی کے اندر حکومت کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک مستحکم حکومت تشکیل نہیں دے سکتی تھی‘ اس لئے نئے انتخابات لازمی ہیں‘ تاکہ عوام فیصلہ کن مینڈیٹ کی حامی سیاسی جماعت کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع فراہم کر سکیں۔ نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والی مسلم لیگ (ن) اکیلی سیاسی جماعت نہیں‘ اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں‘ جن میں پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں‘ نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں‘ جو صرف چند ماہ قبل موجودہ حکومت کو اس کی 5 سالہ آئینی مُدت پوری کرنے دینے پر آمادہ تھیں‘ بلکہ ملک کو درپیش مسائل خصوصاً معیشت کے شعبے میں مسائل کے حل میں حکومت کو اپنا تعاون پیش کر رہی تھیں‘ اب بیک آواز نئے انتخابات کا کیوں مطالبہ کر رہی ہیں؟ اس کالم میں ہم یہ بھی جائزہ لیں گے کہ نئے انتخابات کے امکانات کیا ہیں؟ نئے انتخابات کے مطالبے کے حق میں معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال‘ عوام کو درپیش مسائل خصوصاً مہنگائی اور بیروزگاری کے حل میں حکومت کی ناکامی‘ خارجہ پالیسی کے محاذ پر مایوسی کن کارکردگی اور سب سے بڑھ کر اپوزیشن کی طرف حکومت‘ بلکہ وزیراعظم عمران خان کے جارحانہ رویے کو اہم وجوہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے مطابق‘ ان مسائل کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے‘ سیاسی میدان میں غیر یقینی صورتحال ہے‘ جس کی وجہ سے ناصرف اندرونِ ملک کاروبار اور معاشی سرگرمیاں بند ہیں‘ بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کا بھی پاکستان پر اعتماد متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابات سے پہلے اور آج کے حالات کا‘ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے‘ تو اپوزیشن کے دعووں میں خاصی صداقت نظر آتی ہے۔
حکومت کے اپنے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق انتخابات سے پہلے‘ یعنی 2017-18ء کے مالی سال کے مقابلے میں گزشتہ‘ یعنی 2018-19 ء مالی کے دوران مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافے کی رفتار تقریباً آدھی رہ چکی تھی بلکہ ایک سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق‘ معیشت کا پہیہ جام ہو چکا ہے اور اس میں مزید کمی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حکومتی دعووں کے برعکس ٹیکسوں سے حاصل شدہ آمدنی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ وزیراعظم کو برملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے۔ معاشی دبائو کو کم کرنے کیلئے حکومت آئی ایم ایف سے مکمل ریلیف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے مطابق ‘پاکستان میں آئندہ برسوں میں افراط زر میں اضافہ ہوگا اور بیروزگاری بڑھے گی۔ معیشت کی بہتری کے بارے میں حکومت نے اب تک جتنی بھی ڈیڈ لائنز دی ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے معیشت کے بارے میں اب عوام کو حکومت کے کسی دعوے پر اعتماد نہیں رہا۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء آٹا‘ گھی اور سبزیوں کی قیمتوں میں جو ہوش ربا اضافہ ہوا ہے‘ اس کی ملک کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی اور اگر یہی صورتحال رہی اور اگر عوام نے تنگ آ کر سڑکوں اور گلیوں کا رخ کیا‘ تو پورا نظام ہی دھڑام سے نیچے آ سکتا ہے۔
اس قسم کی صورتحال سے بچنے کیلئے اپوزیشن نئے انتخابات کے ذریعے سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہے تاکہ ایک نئی قیادت تازہ دم مینڈیٹ سے آراستہ ہوکر ملک اور عوام کو موجود غیریقینی صورتحال سے باہر نکالے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی‘ عدم اعتماد اور بدگمانی سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد اپوزیشن نے حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا تھا‘ مگر وزیراعظم عمران خان نے اسے یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ اپوزیشن اس کے بدلے احتساب کے عمل کا خاتمہ چاہتی ہے۔ لیکن دو ڈھائی سال سے جاری اس احتسابی عمل کی کریڈیبلٹی بھی تو تیزی سے کم ہوئی ہے۔ یہ بات عیاں ہو چکی کہ احتساب کا یہ عمل یکساں نہیں‘ بلکہ اس میں صرف دو سیاسی جماعتوں‘ یعنی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تو حکومتی ذرائع نے بھی اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے کہ عوام میں یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے علاج کی خاطر بیرون ملک جانے کے مسئلے پر حکومت کی اپنی حلیف جماعتوں نے جس طرح اختلافی مؤقف اختیار کیا ‘اس سے حکومت کی پوزیشن اور بھی کمزور ہوئی‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومت اکیلی رہ گئی ہے اور حلیف جماعتیں بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہیں تو غلط نہ ہوگا۔ چونکہ ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد بھی حکومت عوام سے کئے گئے کسی وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے‘ اس لیے اپوزیشن کو یقین ہے کہ نئے انتخابات کے حق میں عوام کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے‘ مگر حکمران جماعت نے نئے انتخابات کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی پوزیشن مضبوط ہے‘ اسے کوئی خطرہ نہیں اور یہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔
کچھ عرصہ پیشتر سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا جو نتیجہ برآمد ہوا تھا‘ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو واقعی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ایوان بالا میں اکثریت حاصل ہونے کے باوجود اپوزیشن‘ حکومت کے حمایت یافتہ عہدیدار کو نہیں ہٹا سکی تھی۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں منظم کئے جانے والے ''آزادی مارچ‘‘ اور دھرنے سے بھی حکومت کو ایک لمحہ کیلئے بھی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ حکومت کے لیے اصل خطرہ جیسا کہ بہت تجزیہ نگار کہہ چکے ہیں‘ نہ تو اپوزیشن ہے اور نہ کوئی دھرنا‘ اسے اصل خطرہ خود اپنے آپ سے ہے یا بیرونی حالات سے۔ اندرونی طور پر حکومت کا یہ حال ہے کہ وزیراعظم کچھ کہتے ہیں اور ان کے مشیر کچھ۔ کابینہ کے ارکان اپنے آپ کو کسی ڈسپلن کا پابند نہیں سمجھتے اور اہم پالیسی ایشوز پر بھی بغیر سوچے سمجھے بیان داغ دیتے ہیں۔ کوئی متفقہ پالیسی نہیں ہے۔ اس لیے پالیسی کی ایک متعین سمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لبنان‘ عراق اور ایران میں مہنگائی‘ بیروزگاری‘ قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران کے ساتھ ہماری 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ صدیوں سے ایران اور مشرق وسطیٰ کے حالات برصغیر کو متاثر کرتے چلے آ رہے ہیں‘ مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف مشرق وسطیٰ میں جو خود رو عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں‘ اس کے اثرات یہاں بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
1968ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کسی سیاسی جماعت نے شروع نہیں کی تھی‘ بلکہ اس کا آغاز راولپنڈی میں طلبا کے ایک گروپ کے ساتھ پولیس کے ناروا رویے کے خلاف احتجاج کی صورت میں ہوا تھا‘ جو دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں پھیل گیا تھا۔ ابتدا میں اس کی قیادت کسی پارٹی کے ہاتھ میں نہیں تھی‘ بلکہ یہ ایک عوامی احتجاجی تحریک تھی۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو بعد میں منظرعام پر آئے اور مشرقی پاکستان میں جیل سے رہا ہوکر شیخ مجیب الرحمن نے تحریک کی قیادت سنبھالی تھی۔ موجودہ اپوزیشن نہ تو ان ہائوس تبدیلی لا سکتی ہے اور نہ حکومت کے خلاف ایک کامیاب ملک گیر تحریک چلا سکتی ہے‘ کیونکہ نئے انتخابات کے متفقہ مطالبے کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں بدگمانی بدستور موجود ہے؛ البتہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے دبائو کے تحت حکومت جس طرح ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ بنیادی اور اہم فیصلے کرنے سے کترا رہی ہے‘ اس کے پیش نظر پاکستان میں بھی لبنان‘ عراق اور ایران جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں‘ اگر ایسا ہوا تو نئے انتخابات ناگزیر ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں